Wednesday, December 28, 2016

وہ جس نے ریگزار میں پھعل کھلائے

جس کسی نے عربوں کی زندگی چند سال پہلے دیکھ رکھی ہو، کیا وہ یقین کرسکتا ہے کہ عمرؓ بن الخطاب ایسا سردارِ بنی مخزوم، جو کبھی عکاظ کے میلوں میں چمپئن ہوا کرتا تھا اور جوکہ آج بھی عرب کا سردار ہے بلکہ ’سپریم پاور‘ کا فرماں روا ہے۔۔ حبش کے سیاہ فام بلالؓ کو توقیر دیتے

ہوئے آج یوں گویا ہوتا ہے:
ہذا سیدنا اَعتقہ سیدنا اَبو بکر!(8)
یہ ہمارے آقا ہیں، اِن کو ہمارے آقا ابو بکرؓ نے آزاد کیا تھا!!!!!“
 کون ہے جو اِس منظر پر قربان نہ ہوجائے!!! عرب کا وہ ریگزار اور اُس کے وسط میں ایسا مہکتا پھول!!!
خدایا! کون ہے جس کے دم سے ایک ایسا بنجر لہلہانے لگا؟؟؟!!!
 ٭٭٭٭٭وہ کون مبارک ہستی ہے جس نے معصوم لڑکیوں کو زندہ درگور کر دینے کی سفاک رسم عرب میں درگور کرائی؟ صرف دو آیات جو عرب کی کایا پلٹ گئیں! جنہیں پڑھتے ہوئے عربوں کی ہچکی بندھ جایا کرتی تھی!؟ سننے والے سہم جاتے تھے!؟ یہ دو مختصر آیتیں جو اِس گناہ میں ملوث رہ چکے لوگوں کے گرد حصار باندھ کر کھڑی ہوجاتی تھیں یہاں تک کہ ضمیر کی قید بن جاتیں بلکہ تو پھندا نظر آتیں:
وَإِذَا الْمَوْؤُودَة سُئِلَتْ بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ (التکویر: 9-8)
 اور جس دن زندہ درگور کر دی جانے والی معصوم جان سے پوچھا جائے گا، بھلا کس جرم میں وہ مار دی گئی تھی“؟
٭٭٭٭٭
 ایک ’کم زور‘ مخلوق جو کبھی خود ’ترکہ‘ شمار ہوتی تھی، کس نے اس کو وراثت میں ’زورآور‘ کے ساتھ باقاعدہ ”حصہ دار“ بنا دیا:
 لِّلرِّجَالِ نَصيِبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاء نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا (النساء: 7)
 مردوں کے لئے حصہ ہے اُس میں جو ماں باپ اور اعزاءو اقارب چھوڑ گئے۔ عورتوں کے لئے حصہ ہے اُس میں جو ماں باپ اور اعزاءو اقارب چھوڑ گئے۔ ترکہ چاہے تھوڑا ہے چاہے زیادہ۔ حصہ مقرر ہے
 کہاں وہ خود ’ترکہ‘ تھی، کہاں اب وہ ’ترکہ‘ میں حصہ بٹاتی ہے، کیونکہ اِس قوم میں ایک نبی مبعوث ہو چکا ہے!
 سورہ ٔ نساءکی تفسیر کرنے والا کوئی مؤلف نہ ہوگا جس نے یہ ذکر نہ کیا ہو کہ باپ مر جاتا تو بیٹے صرف اپنی سگی ماں کو چھوڑنے کے روادار ہوتے اور، باپ کے مرتے ہی، اُس کی باقی بیوگان کے گلے میں پٹکے ڈال دینے کیلئے بھاگتے کہ ’یہ میری ہوئی‘۔۔ اور اِس جہالت کے مدمقابل یہ نبی جو خدا کے حق کے سوا کبھی کسی بات پر غضب ناک ہوتا نہ دیکھا گیا، خدائی دستور یوں جاری کراتا ہے:
وَلاَ تَنكِحُواْ مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاء إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَة وَمَقْتًا وَسَاء سَبِيلاً (النور:22)
 اور ان عورتوں سے زوجیت نہ کرو جن سے تمہارے باپ کی زوجیت رہی، سوائے وہی جو بس پہلے ہو لیا، یہ بے حیائی ہے اور گھناؤناپن، اور برے انجام کو پہنچانے والا ہے
 اور اِس خدائی دستور پر سختی ایسی کہ براءبن عازبؓ کہتے ہیں: میں نے اپنے چچا کو سرکاری جھنڈا لہرائے جاتا دیکھا۔ پوچھا، تو کہنے لگے:۔

 ”رسول اللہﷺ نے روانہ فرمایا ہے کہ ایک شخص جس نے اپنے باپ کی منکوحہ کو اپنے گھر میں ڈال لیا ہے، اُس کا مال ضبط اور اُس کو سزائے موت دے کر آؤں“۔ یہ حدیث چاروں سنن میں آئی ہے، جبکہ ترمذی میں الفاظ ہیں: ”اُس آدمی کی طرف، جس نے اپنے باپ کی منکوحہ کو گھر میں ڈال رکھا ہے، کہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں اُس کا سر لا کر پیش کروں“ (سنن النسائی: کتاب النکاح: باب: نکاح ما نکح الآباء)
٭٭٭٭٭
 عرب کا وہ ماحول ذرا ذہن میں لائیے جہاں چند دھیلوں کیلئے آدمی کا خون کر دینے سے دریغ نہیں ہوتا۔ لُوٹنے کیلئے راستوں میں گھات لگا کر بیٹھا جاتا ہے۔ دوسرے کی کسی چیز کی حرمت ہو، اِس کا تو سوال ہی نہیں۔ مال، نہ جان، نہ آبرو، کسی چیز کی عصمت نہیں۔ خود آدمی کو بیچ کھایا جاتا ہے۔ جو جس کے ہاتھ چڑھا وہ اُس کا!ایک دوسرے کا حق دبانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا، بلکہ اِس پر فخریہ کارنامے سنائے جاتے ہیں!
 اِدھر سورہ ٔ نور کی ایک آیت ہے۔۔۔۔ جب تک آپ اِس کا سادہ مفہوم پڑھتے ہیں اور تفسیر میں بیان کئے گئے اِس کے سیاق و سباق میں نہیں جاتے تو حیران ہونے لگتے ہیں کہ کیا یہ بھی کوئی ایسی بات تھی جس کو تفصیلاً بتا دینے کیلئے آیات اتریں:
 اندھے پر کچھ حرج نہیں، لنگڑے پر کچھ حرج نہیں، بیمار پر کچھ حرج نہیں، تمہارے اپنے اوپر کچھ حرج نہیں، کہ

متقدمین محدثین اور شیعہ


متقدمین محدثین اور شیعہ :۔
 تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شروع میں تشیع محض ایک سیاسی رجحان تھا جو بنو امیہ کے مقابلے میں اہل بیت کے لیے مسلمانوں کے بعض گروہوں میں موجود تھا۔ اور اس رجحان نے بہت بعد میں غلو کی صورت میں رافضیت کی شکل اختیار کی ہے۔ شارح بخاری اور معروف محدث علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ فرماتے ہیں: التشيع في عرف المتقدمين هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان، وأن عليا كان مصيبا في حروبه، وأن مخالفه مخطئ، مع تقديم الشيخين وتفضيلهما، وربما اعتقد بعضهم أن عليا أفضل الخلق بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإذا كان معتقد ذلك ورعا دينا صادقا مجتهدا فلا ترد روايته بهذا، لا سيما إن كان غير داعية. وأما التشيع في عرف المتأخرين فهو الرفض المحض ، فلا تقبل رواية الرافضي الغالي ولا كرامة انتهى. "تهذيب التهذيب" (1/81) چنانچہ متقدمین کےنزدیک شیعہ اورروافض میں بہت فرق ہے ۔ ان کامعاملہ آج کل کےشیعہ حضرات کی طرح نہ تھاکہ ان کے روافض کے مابین کچھ فرق وامتیاز نہیں رہا ۔ متقدمین کےنزدیک شیعہ سےمرادوہ لوگ تھے جوصرف تفضیل کے قائل تھے یعنی علی رضی اللہ عنہ کوعثمان رضی اللہ عنہ سےافضل جانتےتھے،اگرچہ عثمان رضی اللہ عنہ کوبرحق امام اورصحابی سمجھتے تھے۔اس طرح کے کچھ لوگ اہل سنت میں بھی گذرے ہیں جو علی رضی اللہ عنہ کوعثمان رضی اللہ عنہ سےافضل قراردیتےتھےلہذایہ ایسی بات نہیں جوبہت بڑی قابل اعتراض ہو۔ہاں کچھ غالی شیعہ شیخین ابوبکروعمررضی اللہ عنہما سےعلی رضی اللہ عنہ کوافضل سمجھتےتھےاگرچہ وہ شیخین رضی اللہ عنہماکےمتعلق اس عقیدہ کے حامل بھی تھے کہ وہ برحق امام اورصحابی رضی اللہ عنہم تھےلیکن علی رضی اللہ عنہ کوافضل قراردیتے تھے اوران کی بات زیادہ سےزیادہ بدعت کےزمرہ میں آتی ہے ۔ حدیث اور بدعتی راوی: کسی بھی راوی کے مقبول ہونے کے لیے دو بنیادی شرطیں ہیں : ١۔ اس کا حافظہ قابل اعتماد ہو ٢۔ صاحب عدالت ہو ۔ ہمارا زیر بحث مسئلہ دوسری شرط سے متعلق ہے ۔ کیونکہ عدالت کی شرط سے بدعتی روای خارج ہوجاتے ہیں ۔ اور
 تشیع یا رفض ایک بدعت ہے لہذا اصل یہ ہے کہ کسی بھی غالی شیعہ یا رافضی کی روایت کو قبول نہیں کیا جائے گا چاہے وہ حفظ و ضبط کا پہاڑ ہی کیوں نہ ہو ۔لیکن بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی کیونکہ مبتدعہ کی بہت ساری اقسام ہیں مختلف اصناف ہیں کچھ ایسے ہیں جن کی بدعت ان کی روایت پر اثر انداز نہیں ہوتی یا وہ کسی بدعت صغری میں مبتلا ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ وہ نیک صادق اللہجہ اور دین دار ہوتے ہیں جبکہ کچھ روای اس کے بر عکس ہوتے ہیں اور جھوٹ بولنا اور تقیہ کرنا ان کے نزدیک جزو ایمان ہے جیساکہ حافظ ذہبی نے لکھا ۔اس لیے محدثین نے اس سلسلے میں کچھ شروط ذکر کیں کہ کن کن بدعتیوں کی روایات کن کن حالات میں قبول ہوں گی (علوم الحدیث لابن الصلاح اور اس کے متعلقات میں تفصیل ملاحظہ کی جا سکتی ہے )اس سلسلے میں جو راحج مذہب اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ بدعتی کی روایت چند شرائط کے ساتھ مقبول ہے ۔ 1. وہ صدوق ہومتہم بالکذب نہ ہو،عادل ہو۔ 2. بدعت مکفرہ میں مبتلا نہ ہو ۔ 3. بدعت کی طرف دعوت نہ دیتا ہو ۔ 4. اس کی روایت میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے اس کے بدعتی مذہب کی تائید ہو رہی ہو ۔ یہ موٹی موٹی شرائط ہیں جن کی موجودگی میں کسی بدعتی کی روایت کو قبول کیا جائے گا ۔ لیکن ایک بات ذہن میں رکھیں چونکہ یہ دو جمع دو برابر چار حساب کے قواعد نہیں لہذا بعض جگہوں پر محدثین نے ان قواعد سے اختلاف بھی کیا ہے مطلب کئی جگہوں پر ان شرائط سے تساہل کیا ہے اور بعض مقامات پرتشدد بھی کیا ہے اور یہ سب کچھ دلائل و قرائن کے ساتھ تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ یہ خواہشات نفس کی پیروی ہے ۔ صحیح بخاری اور شیعہ راوی: یہ درست ہے کہ صحیح بخاری میں شیعہ و دیگر بدعتیوں کی روایات موجود ہیں بلکہ بعض ایسے بدعتی بھی ہیں جو مذکورہ تمام شرائط پر پورے نہیں اترتے لیکن پھر بھی ان کی روایات کو نقل کیا گیا ہے ۔ اس کی مکمل تحقیق کی گئی ، محدثین نے امام بخاری کی صحیح کا تتبع کر کے بدعتی کے بارے میں ان کا موقف سمجھنے کی کوشش کی اور امام بخاری کے اس سلسلے میں معیار کا کھوج لگایا جو کہ درج ذیل نقاط میں بیان کیا جا سکتا ہے : ١۔ صحیح بخاری میں بدعت مکفرہ والا راوی کوئی نہیں ہے ۔ ٢۔ اکثر ان میں سے غیر داعی ہیں کچھ ایسے ہیں جو داعی تھے لیکن پھر توبہ کر چکے تھے ۔ ٣۔ اکثر روایات متابعات و شواہد میں ہیں ۔ ٤۔ بعض ایسے ہیں جن کا بدعتی ہونا ہی ثابت نہیں ۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں باحث أبو بکر الکافی کا رسالہ منہج الإمام البخاری فی تصحیح الأحادیث و تعلیلہا ص ١٠٥ خاصۃ ) خلاصہ یہ کہ بخاری ومسلم میں کسی ایسے شیعہ راوی کی روایت نہیں ہے کہ جو رافضی ہو یا شیخین اور ازواج مطہرات پر لعن طعن کرتا ہو وغیرہ۔ اگر کسی کو شیعہ راوی سے محدثین کے روایت کرنے کے اصولوں کے بارے جاننے کا اشتیاق ہو تو اس موضوع پر محمد خلیفہ الشرع کی کتاب "منهج الإمامين البخاري ومسلم في الرواية عن رجال الشيعة في صحيحيهما" اور کریمہ سودانی کی کتاب "منهج الإمام البخاري في الرواية عن المبتدعة من خلال الجامع الصحيح : الشيعة أنموذجا" کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ استفادہ تحریر :بخاری میں شیعہ راویوں سے روایات از حافظ زبیر

Wednesday, April 27, 2016

غلامی کے مسئلہ پر ایک نظر


غلامی کے مسئلہ پر ایک نظر
 ازقلم:‌۔ مولانا زاہدالراشدی صاحب

 غلامی کا رواج قدیم دور سے چلا آ رہا ہے۔ بعض انسانوں کو اس طور پر غلام بنا لیا جاتا تھا کہ وہ اپنے مالکوں کی خدمت پر مامور ہوتے تھے، ان کی خرید وفروخت ہوتی تھی، انھیں آزاد لوگوں کے برابر حقوق حاصل نہیں ہوتے تھے اور اکثر اوقات ان سے جانوروں کی طرح کام لیا جاتا تھا۔ جدید دنیا میں بھی ایک عرصے تک غلامی کا رواج رہا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں، جسے جدید دنیا کی علامت کہا جاتا ہے، غلامی کو باقاعدہ ایک منظم کاروبار کی حیثیت حاصل تھی۔ افریقہ سے بحری جہازوں میں ہزاروں افراد کو بھر کر لایا جاتا تھا اور امریکہ کی منڈیوں میں فروخت کر دیا جاتا تھا۔ غلامی کے جواز اور عدم جواز پر امریکی دانش وروں میں صدیوں تک بحث جاری رہی حتیٰ کہ شمال اور جنوب کی تاریخی خانہ جنگی کے اسباب میں بھی ایک اہم مسئلہ غلامی کا تھا۔ یہاں تک کہ ۱۸۶۵ء میں امریکہ میں قانونی طور پر غلامی کے خاتمہ کا فیصلہ کیا گیا۔ برازیل میں ۱۸۸۸ء میں غلامی کو ممنوع قرار دیا گیا۔ نیپال نے ۱۹۲۶ء میں غلامی کے خاتمے کا اعلان کیا اور ۱۹۴۹ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دنیا بھر میں غلامی کی مکمل ممانعت کا اعلان کیا جس کے بعد اب دنیا میں غلامی کی کوئی صورت قانونی طور پر باقی نہیں رہی۔ قدیم دور میں غلامی کی دو صورتیں ہوتی تھیں۔ ایک یہ کہ کسی بھی بے سہارا شخص کو طاقت ور لوگ پکڑ کر قیدی بنا لیتے تھے اور پھر اسے غلام بنا کر بیچ دیتے تھے، جیسا کہ ابتداے اسلام میں حضرت زید بن حارثہؓ اور حضرت سلمان فارسیؓ کے ساتھ واقعہ پیش آیا۔ دونوں آزاد گھرانوں کے آزاد افراد تھے، لیکن سفر کی حالت میں انھیں تنہا پا کر کچھ لوگوں نے قیدی بنا لیا اور غلام کی حیثیت سے آگے فروخت کر دیا۔ یہ غلامی ان حضرات کے لیے خوش قسمتی کا باعث بنی کہ ایک مکہ مکرمہ میں اور دوسرے مدینہ منورہ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گیا اور بالآخر آزادی کے ساتھ ساتھ دونوں صحابیت کے شرف سے بھی ہم کنار ہوئے۔ اسے ’’بیع الحر‘‘ یا آج کی اصطلاح میں ’’بردہ فروشی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسلام نے اس کی مکمل ممانعت کر دی اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی آزاد شخص کو غلام بنانے یا اسے فروخت کرنے کو قطعی طور حرام قرار دے دیا، جبکہ مغربی ممالک میں یہ بردہ فروشی اس کے بعد ایک ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ تک جاری رہی اور اسے قانونی تحفظ حاصل رہا۔ غلامی کی دوسری صورت یہ تھی کہ باہمی جنگوں میں جو لوگ قیدی بنتے تھے اور انھیں قتل کرنا، چھوڑ دینا یا فدیہ لے کر آزاد کرنا فاتحین کی مصلحت میں نہیں ہوتا تھا، انھیں غلام بنا لیا جاتا تھا اور باقاعدہ قید خانوں میں ڈالنے کے بجائے افراد اور خاندانوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا جنھیں گھر کے دوسرے درجے کے افراد کا درجہ حاصل ہوتا تھا، ان کی خرید وفروخت ہوتی تھی اور ان مین جو خواتین ہوتی تھیں، ان کے ساتھ جنسی تعلق کا ان کے مالکوں کو حق حاصل ہوتا تھا۔ یہ جنگی قیدیوں کے بارے میں مختلف عملی صورتوں میں سے ایک صورت اور آپشن سمجھا جاتا تھا اور اس کا عام رواج تھا۔ اسلام نے اس آپشن کو ختم کرنے کے بجائے باقی رکھا، البتہ اس صورت میں غلام یا لونڈی بن جانے والوں کے حقوق کا تعین کیا، ان کے ساتھ معاملات کو باقاعدہ قوانین وضوابط کی شکل دی، ان کے حقوق وفرائض کی وضاحت کی اور مختلف حوالوں سے مثلاً اجر وثواب کے حصول کے لیے، بعض گناہوں کے کفارات میں اور بعض جرائم کی سزاؤں میں ان کی آزادی کے مختلف راستے کھولے۔ اسلام نے اس دور میں جبکہ پوری دنیا میں غلاموں کو جانوروں کی طرح سمجھا جاتا تھا، ان کے لیے سہولت اور حقوق کی کیا صورتیں پیدا کیں، ان کا ہلکا سا اندازہ دو تین امور سے لگایا جا سکتا ہے: زید بن حارثہؓ جنھیں آزاد حالت میں پکڑ کر غلام بنا لیا گیا تھا اور فروخت کر دیا گیا تھا، بالآخر مکہ مکرمہ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام بنے اور آپ نے انھیں آزاد کر کے اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا۔ اس دوران ان کے اہل خاندان کو ان کے بارے میں پتہ چلا تو وہ انھیں لینے کے لیے مکہ مکرمہ آئے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہؓ کو اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا، مگر زید بن حارثہؓ نے خاندان والوں کے ساتھ واپس جانے سے انکار کر دیا۔ مسلم شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر حکم دیا کہ یہ غلام تمھارے بھائی ہیں، جو خود کھاؤ انھیں وہی کھلاؤ، جو خود پہنو ، وہی انھیں پہناؤ اور ان کی طاقت سے زیادہ ان سے کام نہ لو۔ ایک صحابی نے اپنی لونڈی کو اس بات پر تھپڑ رسید کیا کہ وہ بکریاں چرا رہی تھی اور اس کی بے پروائی کی وجہ سے بھیڑیا ایک بکری لے گیا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈی کو اس طرح تھپڑ مارنے پر سخت ناراضی کا اظہار فرمایا تو اس صحابی نے لونڈی کو آزاد کر دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم اسے آزاد نہ کرتے تو جہنم کی آگ تمھیں لپیٹ میں لے لیتی۔ اس طرح کے بیسیوں واقعات اور روایات پیش کی جا سکتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے ان غلاموں اور لونڈیوں کو کس طرح زندگی کی سہولتوں سے بہرہ ور کیا، ان کے لیے علم کے دروازے کھولے اور انھیں زندگی کے مختلف شعبوں میں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے، حتیٰ کہ خاندان غلاماں کے حکمرانوں کی ایک پوری تاریخ ہے اور علم وفضل اور حکمت ودانش کے ساتھ ساتھ دولت واقتدار میں وافر حصہ لینے والے مسلم مشاہیر کی تاریخ مرتب کی جائے تو ایسے غلاموں کی ایک بڑی فہرست سامنے آئے گی جن کے لیے یہ غلامی ہی ان سعادتوں کے حصول کا ذریعہ ثابت ہوئی، لیکن اس سب کچھ کے باوجود جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کی یہ بات بہ طور حکم کے نہیں بلکہ مختلف آپشنوں میں سے ایک آپشن کے طور پر تھی اور میری طالب علمانہ رائے کے مطابق اسے برقرار رکھنے کی ایک حکمت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس زمانے میں باقاعدہ قید خانے اس انداز سے نہیں ہوتے تھے کہ ان میں ہزاروں افراد کو منظم طور پر سالہا سال تک قید میں رکھا جا سکتا، اس لیے جن قیدیوں کو قید میں رکھنا ضروری ہوتا تھا، ان کے لیے عملی صورت یہی ممکن تھی کہ انھیں تقسیم کر دیا جائے اور وہ ریاست کے قیدی بننے کے بجائے افراد اور خاندانوں کے قیدی رہیں۔ جن لوگوں نے زندگی بھر قید میں رہنا ہے، خود ان کے لیے بھی بہتر صورت یہ تھی کہ انھیں قید خانوں میں ڈالنے کے بجائے افراد اور خاندانوں میں تقسیم کر دیا جائے تاکہ وہ قیدی ہونے کے باوجود زندگی کی مناسب سہولتوں اور حقوق سے کسی حد تک بہرہ ور ہو سکیں۔ اس کی عملی شکل آج کے دور میں دیکھنی ہو تو جیل خانوں میں بند قیدیوں اور اچھا کردار رکھنے والے قیدیوں کو پیرول پر مختلف خاندانوں میں نیم قیدیوں کی صورت میں تقسیم کیے جانے والے قیدیوں کا موازنہ کر لیا جائے۔ یہ بات واضح ہو جائے گی کہ خود ان قیدیوں کے لیے بہتر صورت کون سی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ اعتراض قیدی خواتین کے ساتھ جنسی تعلق کو روا قرار دیے جانے پر کیا جاتا ہے، لیکن اس حوالے سے دیکھا جائے کہ ایک ایسی خاتون جس کی واپسی کے اس دور میں تمام راستے مسدود تھے اور اس نے عمر بھر قیدی ہی رہنا تھا، اس کے لیے ایک عورت کے طور پر کیا صور ت مناسب اور بہتر تھی۔ اسلام نے اس زمانے کے عالمی عرف کے مطابق اس کو ایک آپشن کے طور پر قبول کیا، لیکن اس کے ساتھ حقوق ومفادات کا ایک ایسا نظام بھی قانونی طور پر قائم کر دیا کہ اس جنسی تعلق اور اولاد کی صورت میں وہ عورت آزادی اور دیگر حقوق کی مستحق بھی قرار پاتی ہے۔ چنانچہ میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ اسلام نے غلام اور لونڈی بنانے کا حکم نہیں دیا بلکہ اس دور کے عالمی عرف کے مطابق اسے جنگی قیدیوں کے لیے ایک آپشن کے طور پر برقرار رکھتے ہوئے اس کی اصلاح اور بہتری کے لیے احکام وقوانین کا ایک پورا نظام فراہم کر دیا جیسا کہ آج کے عالمی عرف کے مطابق جنگی قیدیوں کے بارے میں جنیوا کنونشن کو عالم اسلام نے بھی قبول کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان وفلسطین سمیت جن مقامات پر جہاد کے عنوان سے جنگیں ہوئی ہیں یا ہو رہی ہیں، وہاں مجاہدین نے کسی قیدی کو غلام یا لونڈی کا درجہ نہیں دیا اور انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دیے جانے والے مجاہدین نے بھی جنگی قیدیوں کے بارے میں عالمی عرف اور قوانین کا عملاً احترام کیا ہے۔ البتہ یہ وضاحت ضروری ہے کہ اگر کسی دور میں یہ عالمی عرف بھی تبدیل ہو گیا اور پہلے کی طرح کے حالات دوبارہ پیدا ہو گئے تو اسلام کا یہ آپشن بطور آپشن کے باقی رہے گا اور اس سلسلے میں قرآن وسنت اور فقہ اسلامی کے احکام دوبارہ نافذ العمل ہو جائیں گے۔ اس لیے دوستوں سے یہ گزارش کروں گا کہ وہ اسلام کے کسی حکم یا قانون کے بارے میں مغربی پراپیگنڈے متاثر ہو کر استہزا اور طنز کا لہجہ اختیار کرنے کے بجائے اس کے پس منظر سے واقفیت حاصل کریں اور اسلامی احکام کو مغربی فلسفہ وثقافت اور مغربی معاشرہ کے معروضی تناظر پر پرکھنے کے بجائے ان کے حقیقی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کریں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ویسٹرن سوسائٹی کو تہذیب وثقافت اور سولائزیشن کا حتمی معیار تصور نہ کیا جائے اور اسلامی قوانین واحکام کو انسانی سوسائٹی کے حقیقی مسائل اور ضروریات کے حوالے سے دیکھا جائے تو قرآن وسنت کا کوئی بھی حکم ناقابل فہم نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا صحیح شعور عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔(ماہنامہ الشریعہ اکتوبر 2006ء) www.zahidrashdi.org/tareekh/ghulami-ke-masala-par-aik-nazar

البینۃ کی گم شدہ آیات کی حقیقت

ثیودور نولڈکی (Theodor Nöldeke) کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عیسائی مشنری ” ضائع شدہ آیات“کے موضوع سے قرآن مجید پر الزام تراشیاں کرتے رہتے ہیں۔ انہیں میں سے ایک الزام یہ ہے کہ سورہ البینہ کی ایک آیت ضائع ہو گئی تھی۔ جیسے نولڈکی اپنی کتاب " Geschichte des Qorans 1/242 Leipzig 1909" میں جامع ترمذی کی ایک حدیث سے یہ استدلال کرتا ہے:
عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ ”إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْکَ الْقُرْآنَ“ فَقَرَأَ عَلَيْهِ }لَمْ يَکُنْ الَّذِينَ کَفَرُوا{ وَقَرَأَ فِيهَا ”إِنَّ ذَاتَ الدِّينِ عِنْدَ اللَّهِ الْحَنِيفِيَّةُ الْمُسْلِمَةُ لَا الْيَهُودِيَّةُ وَلَا النَّصْرَانِيَّةُ وَلَا الْمَجُوسِيَّةُ مَنْ يَعْمَلْ خَيْرًا فَلَنْ يُکْفَرَهُ“ وَقَرَأَ عَلَيْهِ ”لَوْ أَنَّ لِابْنِ آدَمَ وَادِيًا مِنْ مَالٍ لَابْتَغَی إِلَيْهِ ثَانِيًا وَلَوْ کَانَ لَهُ ثَانِيًا لَابْتَغَی إِلَيْهِ ثَالِثًا وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا تُرَابٌ وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَی مَنْ تَابَ۔ (جامع ترمذی الرقم: 3898)
”ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا : ” اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں(قرآن) پڑھ کر سناؤں“، پھر آپ نے انہیں {لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ }پڑھ کر سنایا، اور اس میں یہ بھی پڑھا ” إِنَّ ذَاتَ الدِّينِ عِنْدَ اللَّهِ الْحَنِيفِيَّةُ الْمُسْلِمَةُ لَا الْيَهُودِيَّةُ وَلَا النَّصْرَانِيَّةُ وَلَا الْمَجُوسِيَّةُ مَنْ يَعْمَلْ خَيْرًا فَلَنْ يُکْفَرَهُ“ یعنی بیشک دین کی حقیقت اللہ کے نزدیک(دین) حنیفیت اسلام ہے نہ یہودیت نہ نصرانیت اور نہ مجوسیت۔ اور جو شخص جو نیکی کرے گا اسے ضرور اس کا اجر ملے گا ۔ اور آپ نے ان کے سامنے یہ بھی پڑھا: ” لَوْ أَنَّ لِابْنِ آدَمَ وَادِيًا مِنْ مَالٍ لَابْتَغَی إِلَيْهِ ثَانِيًا وَلَوْ کَانَ لَهُ ثَانِيًا لَابْتَغَی إِلَيْهِ ثَالِثًا وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا تُرَابٌ وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَی مَنْ تَابَ“۔ یعنی اگر ابن آدم کے پاس مال کی ایک وادی ہو تو وہ دوسری وادی کی خواہش کرے گا اور اگر اسے دوسری بھی مل جائے تو وہ تیسری چاہے گا، اور آدم زادہ کا پیٹ صرف خاک ہی بھر سکے گی اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتے ہیں جو توبہ کرتا ہے “۔

فرضی طور پر گمشدہ آیات
یہاں دو گمشدہ فرضی آیات ملتی ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے سورہ البینہ کی آیت کے بعد پڑھیں۔ پہلی:
إِنَّ ذَاتَ الدِّينِ عِنْدَ اللَّهِ الْحَنِيفِيَّةُ الْمُسْلِمَةُ لَا الْيَهُودِيَّةُ وَلَا النَّصْرَانِيَّةُ وَلَا الْمَجُوسِيَّةُ مَنْ يَعْمَلْ خَيْرًا فَلَنْ يُکْفَرَهُ
” بے شک اللہ کے نزدیک دین راست کی حقیقت سچا اسلام ہے نہ کہ یہودیت نہ کہ نصرانیت، نہ کہ مجوسیت۔ اور جو شخص جو نیکی کرے گا اسے ضرور اس کا اجر ملے گا“۔
اور دوسری فرضی آیت یہ ہے:
لَوْ أَنَّ لِابْنِ آدَمَ وَادِيًا مِنْ مَالٍ لَابْتَغَی إِلَيْهِ ثَانِيًا وَلَوْ کَانَ لَهُ ثَانِيًا لَابْتَغَی إِلَيْهِ ثَالِثًا وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا تُرَابٌ وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَی مَنْ تَابَ
” اگر ابن آدم کے پاس مال کی ایک وادی ہو تو وہ دوسری وادی کی خواہش کرے گا اور اگر اسے دوسری بھی مل جائے تو وہ تیسری چاہے گا، اور آدم زادہ کا پیٹ صرف خاک ہی بھر سکے گی“۔
حقیقت:
حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں فرضی آیات کبھی قرآن مجید کی سورۃ البینہ کا حصہ تھیں ہی نہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ الفاظ سورۃ البینہ کی آیت کی تفسیر میں فرمائے تھے۔ یہ دو وجوہات کی بنا پر واضح ہے:
1: امام حاکمؒ کی مستدرک میں اسی روایت کے الفاظ اس بات کی ناقابل تردید گواہی دے رہے ہیں کہ یہ الفاظ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے بطور تفسیر فرمائے تھے۔ روایت ملاحظہ فرمائیں:
عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ، فَقَرَأَ: {لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ} وَمِنْ نَعْتِهَا لَوْ أَنَّ ابْنَ آدَمَ سَأَلَ وَادِيًا مِنْ مَالٍ، فَأَعْطَيْتُهُ، سَأَلَ ثَانِيًا، وَإِنْ أَعْطَيْتُهُ ثَانِيًا، سَأَلَ ثَالِثًا، وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ، وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ، وَإِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْحَنِيفِيَّةُ غَيْرَ الْيَهُودِيَّةِ، وَلَا النَّصْرَانِيَّةِ، وَمَنْ يَعْمَلْ خَيْرًا فَلَنْ يُكْفَرَهُ(مستدرک حاکم جلد2 صفحہ 244 الرقم:2889 مطبوعہ دار الکتب علمیہ بیروت2010) امام ذہبیؒ نے اس کو صحیح کہا ہے۔
”ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا : ” اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں پڑھ کر سناؤں“۔ پھر آپ نے انہیں {لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ }پڑھ کر سنایا، اور اس کی وضاحت میں(آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے) فرمایا : ” لَوْ أَنَّ ابْنَ آدَمَ سَأَلَ وَادِيًا مِنْ مَالٍ، فَأَعْطَيْتُهُ، سَأَلَ ثَانِيًا، وَإِنْ أَعْطَيْتُهُ ثَانِيًا، سَأَلَ ثَالِثًا، وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ، وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ“۔ اگر ابن آدم مال کی ایک وادی مانگے اور وہ اسے دے دی جائے تو وہ دوسری کا سوال کرے گا اور اگر دوسری کا سوال کرنے پر وہ بھی مل جائے تو تیسری کا سوال کرے گا، اور ابن آدم کا پیٹ صرف خاک ہی بھر سکے گی۔ اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتے ہیں جو توبہ کرتا ہے۔ ” وَإِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْحَنِيفِيَّةُ غَيْرَ الْيَهُودِيَّةِ، وَلَا النَّصْرَانِيَّةِ، وَمَنْ يَعْمَلْ خَيْرًا فَلَنْ يُكْفَرَهُ“اور درحقیقت دین اللہ کے نزدیک حنیفیت(اسلام) ہے نہ یہودیت اور نہ نصرانیت۔ اور جو شخص جو نیکی کرے گا اسے ضرور اس کا اجر ملے گا۔
یہ حدیث بالکل واضح کرتی ہے کہ فرضی آیات، قرآن مجید کا ہرگز حصہ نہ تھی بلکہ البینہ کی بعض آیات کی وضاحت و تفسیر میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ الفاظ کہے۔
2: اگر یہ فرضی آیات درحقیقت قرآن مجید کی آیات ہوتیں تو دوسری احادیث میں ان کے الفاظ میں بالکل فرق نہ ہوتا، جیسا کہ قرآنی الفاظ میں بالکل بھی فرق نہیں ہیں۔ آئیں ان لے الفاظ کے فرق کو دیکھتے ہیں۔
2.1اللہ کے نزدیک دین
سنن ترمذی کی روایت میں ہم پڑھتے ہیں:
إِنَّ ذَاتَ الدِّينِ عِنْدَ اللَّهِ الحَنِيفِيَّةُ المُسْلِمَةُ لَا اليَهُودِيَّةُ وَلَا النَّصْرَانِيَّةُ وَلَا المَجُوسِيَّةُ
بیشک دین کی حقیقت اللہ کے نزدیک(دین) حنیفیت اسلام ہے نہ یہودیت نہ نصرانیت اور نہ مجوسیت۔
مسند احمد بن حنبل کی حدیث الرقم:21203 اس طرح ہے:
إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْحَنِيفِيَّةُ، غَيْرُ الْمُشْرِكَةِ، وَلَا الْيَهُودِيَّةِ، وَلَا النَّصْرَانِيَّةِ
درحقیقت دین اللہ کے نزدیک حنیفیت(اسلام) ہے نہ یہودیت اور نہ نصرانیت۔
مسند احمد بن حنبل کی ہی ایک اور حدیث الرقم: 21202 یوں ہے:
وَإِنَّ ذَلِكَ الدِّينَ الْقَيِّمَ عِنْدَ اللهِ الْحَنِيفِيَّةُ، غَيْرُ الْمُشْرِكَةِ، وَلَا الْيَهُودِيَّةِ، وَلَا النَّصْرَانِيَّةِ
اور درحقیقت سچا دین اللہ کے نزدیک حنیفیت(اسلام) ہے نہ کہ مشرکیت اور نہ یہودیت اور نہ نصرانیت۔
ایک اور کتاب الاحادیث مختارہ الرقم: 1162 میں ہمیں اس حدیث کے الفاظ مختلف ملتے ہیں:
إِنَّ ذَاتَ الدِّينِ عِنْدَ اللَّهِ الْحَنِيفِيَّةُ السَّمْحَةُ لَا الْمُشْرِكَةُ وَلا الْيَهُودِيَّةُ وَلا النَّصْرَانِيَّةُ
درحقیقت اللہ نے نزدیک دین کی حقیقت آسان(دین)حنیفیت ہے۔ نہ مشرکیت اور نہ یہودیت اور نہ نصرانیت۔
اور مستدرک حاکم الرقم:2889 میں اسی حدیث کے الفاظ مختلف ہیں اور وہاں مشرکیت کا کوئی تذکرہ نہیں:
وَإِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْحَنِيفِيَّةُ غَيْرَ الْيَهُودِيَّةِ، وَلَا النَّصْرَانِيَّةِ
اور بے شک اللہ کے نزدیک دین حنیفیت ہے، نہ یہودیت اور نہ نصرانیت۔
احادیث کے الفاظ کا یہ فرق ظاہر کرتا ہے کہ یہ الفاظ قرآن مجید کا حصہ نہ تھے۔ اور ثبوت اس کا یہ ہے کہ ان احادیث میں جہاں جہاں بھی آیت قرآنی یعنی البینہ کی آیت بیان ہوئی وہ ہمیشہ بغیر الفاظ کہ کسی فرق سے بیان ہوئی اور احادیث کے دیگر الفاظ میں فرق ہے۔ یہ فرق بالکل واضح کرتا ہے کہ یہ الفاظ کبھی بھی قرآن مجید کا حصہ نہ تھے، اور نہ ہی راویان احادیث ان الفاظ کو قرآن مجید کا حصہ گردانتے تھے۔
کچھ احادیث میں یہ ” إِنَّ الدِّينَ“ ہے، کچھ میں ” إِنَّ ذَاتَ الدِّينِ“اور کچھ میں یہ ” إِنَّ ذَلِكَ الدِّينَ الْقَيِّمَ “ ہے۔ کچھ احادیث میں یہ ” الحَنِيفِيَّةُ المُسْلِمَةُ “ ہے، کچھ میں صرف ”الحَنِيفِيَّةُ“ اور دیگر حدیث میں یہ ایک اور تبدیلی کے ساتھ ” الْحَنِيفِيَّةُ السَّمْحَةُ “ ہے۔ ایک حدیث میں ” لَا المَجُوسِيَّةُ“ یعنی ”نہ مجوسیت“ کے الفاظ ہیں اور دوسری میں ” لَا الْمُشْرِكَةُ “ یعنی ”نہ مشرکیت“ اور ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں ہی نہیں۔ اور ایک حدیث میں الفاظ ” غَيْرُ الْمُشْرِكَةِ“ ہیں اور دوسری میں ”لَا الْمُشْرِكَةُ “۔
مزید یہ کہ سنن ترمذی کی حدیث میں الفاظ ”مَنْ يَعْمَلْ“ ہے اور دیگر احادیث میں یہ الفاظ ” وَمَنْ يَعْمَلْ“ ہے۔ یعنی ”و“ کے ساتھ ہیں۔
ایک اور بات پر بھی توجہ کی جائے کہ الفاظ ” ذَاتَ الدِّينِ“، ” الْيَهُودِيَّةُ“، ” النَّصْرَانِيَّةِ“ اور ” المَجُوسِيَّةُ“قرآن مجید میں نہیں استعمال کئے گئے جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ غیر قرآنی انداز ہے۔
2.2 مال سے بھری دو وادیاں
سنن ترمذی کی حدیث میں الفاظ یوں ہیں:
لَوْ أَنَّ لِابْنِ آدَمَ وَادِيًا مِنْ مَالٍ لَابْتَغَی إِلَيْهِ ثَانِيًا، وَلَوْ کَانَ لَهُ ثَانِيًا، لَابْتَغَی إِلَيْهِ ثَالِثًا، وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا تُرَابٌ، وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَی مَنْ تَابَ
”اگر ابن آدم کے پاس مال کی ایک وادی ہو تو وہ دوسری وادی کی خواہش کرے گا اور اگر اسے دوسری بھی مل جائے تو وہ تیسری چاہے گا، اور ابن آدم کا پیٹ صرف خاک ہی بھر سکے گی اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتے ہیں جو توبہ کرتا ہے“۔
اور مسند احمد بن حنبل کی حدیث الرقم: 21203 کے الفاظ یوں ہیں:
لَوْ أَنَّ لِابْنِ آدَمَ وَادِيَيْنِ مِنْ مَالٍ، لَسَأَلَ وَادِيًا ثَالِثًا، وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ
”اگر ابن آدم کے پاس مال کی دو وادیاں ہوتیں تو وہ تیسری وادی مانگے گا، اور آدم زادہ کا پیٹ صرف خاک ہی بھر سکے گی“۔
فرق کو نوٹ کریں کہ کیسے الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ بات واضح ہوتی جا رہی ہے اور احادیث کا آخری حصہ یعنی توبہ کرنے والی کی توبہ قبول ہوتی ہے، مستقل ہے۔
اور مستدرک حاکم الرقم:2889 اور مسند احمد بن حنبل الرقم: 21202 کی احادیث میں ہم یوں پڑھتے ہیں:
وَلَوْ أَنَّ ابْنَ آدَمَ سَأَلَ وَادِيًا مِنْ مَالٍ فَأُعْطِيَهُ، لَسَأَلَ ثَانِيًا وَلَوْ سَأَلَ ثَانِيًا فَأُعْطِيَهُ، لَسَأَلَ ثَالِثًا، وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ، وَيَتُوبُ اللهُ عَلَى مَنْ تَابَ
اگر ابن آدم مال کی ایک وادی مانگے اور وہ اسے دے دی جائے تو وہ دوسری کا سوال کرے گا اور اگر دوسری کا سوال کرنے پر وہ بھی مل جائے تو تیسری کا سوال کرے گا، اور ابن آدم کا پیٹ صرف خاک ہی بھر سکے گی۔ اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتے ہیں جو توبہ کرتا ہے۔
اب ان تینوں میں احادیث میں بھی الفاظ کا فرق بالکل واضح ہے۔
اس کے علاوہ سنن ترمذی کی حدیث کا مستدرک حاکم کی اوپر بیان حدیث(2889) سے موازنہ کریں۔ سنن ترمذی کی حدیث میں ’دین حنیفیت کے متعلقہ بات‘ کو ’انسان کی مال کی وادیوں کے متعلق چاہت‘ سے پہلے بیان کیا گیا ہے اور مسند احمد بن حنبل کی حدیث:21203 میں طریق بیان بھی یہی ہے۔ جبکہ مستدرک حاکم کی حدیث میں ’دین حنیفیت کے متعلقہ بات‘ کو’مال کی دو دادیوں کے متعلقہ بیان‘ کے بعد بیان کیا گیا ہے اور مسند احمد بن حنبل کی حدیث:21202 میں طریق بیان بھی یہی ہے۔
یہ ترتیب کا فرق بھی ثابت کرتا ہے کہ یہ الفاظ قرآن مجید کے نہیں ہیں جیسا کہ قرآنی الفاظ کو ایک خاص ترتیب سے بیان کیا گیا ہے۔
یہ الفاظ کس جملہ قرآنیہ کی تفسیر ہیں؟
یہ الفاظ دراصل سورۃ البینہ کی آیت 5 کی وضاحت کرتے ہیں:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ (البینہ 98:5)
”حالانکہ ان کو یہی حکم دیا گیا تھا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں، اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے بالکل یکسو ہو کر نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور یہی درست دین ہے“۔
بظاہر انسان کی وادیوں کی چاہت کے متعلقہ بیان زکوٰۃ کے ادائیگی پر تاکید ” يُؤْتُوا الزَّكَاةَ“ ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ بصورت دیگر انسان میں دولت کی تڑپ کبھی ختم نہیں ہوتی۔ اور دین حنیفیت کے متعلقہ بیان سورۃ البینہ کے الفاظ ” دِينُ الْقَيِّمَةِ“کی وضاحت کر رہے ہیں۔
کچھ ممکنہ سوالات کے جوابات:
1: شائد کوئی کہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ بیانات البینہ کی پانچویں آیت کی تفسیر کرتی ہوں، حالانکہ احادیث میں تو البینہ کی پہلی آیت کے چند الفاظ آئے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ صرف ابتدائی چند الفاظ کا ہی بیان کرنا سورۃ البینہ کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہیں بجائے اس کا نام لیا جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مختلف راویوں نے سورۃ البینہ کی طرف اشارہ کرنے کے لئے مختلف حدودِ الفاظ استعمال کیں۔
جیسا کہ سنن ترمذی کی حدیث میں البینہ کے الفاظ صرف ” لَمْ يَکُنْ الَّذِينَ کَفَرُوا“ یہ ہیں۔ مسند احمد بن حنبل کی روایت 21202 میں الفاظ ” لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ“ ہیں۔ مستدرک حاکم کی حدیث 2889 میں یہ الفاظ ” لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ“ہیں۔ الغرض ان تمام احادیث میں پہلی آیت بھی مکمل طور پر بیان نہیں کی گئی۔ اور الاحادیث مختارہ روایت کی حدیث میں تو صرف ” لَمْ يَكُنِ“ بیان ہے۔ پس یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ البینہ کی پہلی آیت کی مختلف حدودِ الفاظ صرف سورہ البینہ کی طرف اشارۃ بیان ہیں۔
2: جہاں تک اس معاملہ کی بات ہے کہ کچھ احادیث میں ” ثُمَّ خَتَمَهَا بِمَا بَقِيَ مِنْهَا“ یعنی ”پھر انہوں نے بقیہ سورت پڑھی“ کے الفاظ آئیں ہیں تو ان سے مراد آیت 6 اور 7 ہیں، کہ پہلی پانچ آیات کی تفسیر گذر چکی اور اس کے بعد بقیہ آیات پڑھیں گئیں۔
3: اگر کوئی کہے کہ احادیث صاف طور پر کہہ رہیں ہیں کہ ” وَقَرَأَ فِيهَا“یعنی ” اور اس میں یہ بھی پڑھا“ تو یہ کیسے بطور تفسیر و تفصیل ہو سکتیں ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ تمام احادیث کو یکجا کریں تو مستدرک حاکم کی حدیث 2889 صاف طور پر بتلا رہی ہے ” وَمِنْ نَعْتِهَا“یعنی ” اور اس کی وضاحت میں“، کہ یہ الفاظ بطور تفسیر ہیں۔” وَقَرَأَ فِيهَا“ کے الفاظ بعد کے راوی کہ ہیں اور اس کی دلیل اسی حدیث میں موجود ” وَقَرَأَ عَلَيْهِ“، ”انہوں نے اس کے سامنے پڑھا“ یعنی حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے سامنے پڑھا، کے الفاظ ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ الفاظ بعد کے راوی کہ ہیں ورنہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اپنے لئے متکلم غائب(Third Person) کا صیغہ نہ استعمال کرتے۔ در حقیقت مسند احمد بن حنبل کی حدیث21203 کے الفاظ ” قَالَ شُعْبَةُ“ واضح طور پر بتلا رہیں ہے کہ یہ الفاظ ایک راوی شعبہ(شعبہ بن حجاج بن الورد) کے ہیں۔ بعد کے راوی کے الفاظ جس میں بھی ایک تسلسل نہیں مذکورہ حقائق قرآن مجید کے عظیم تواتر کے سامنے ہرگز حجت نہیں ہو سکتے۔
خلاصہ
مذکورہ تفصیل یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں تفصیلات قرآن مجید کے حصہ کے طور پر نہیں بیان کئے تھے۔ وہ کبھی بھی سورۃ البینہ کا حصہ نہیں تھیں۔ یہ صرف حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی تفسیر تھی۔ تفصیلات میں الفاظ کا فرق اور غیر قرآنی طریق کار بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ الفاظ کبھی بھی قرآن مجید کے حصہ کے طور پر نہیں بیان کئے گئے تھے۔
ترجمہ آرٹیکل
http://www.letmeturnthetables.com/…/surah-98-bayyinah-lost-…