Wednesday, December 28, 2016

وہ جس نے ریگزار میں پھعل کھلائے

جس کسی نے عربوں کی زندگی چند سال پہلے دیکھ رکھی ہو، کیا وہ یقین کرسکتا ہے کہ عمرؓ بن الخطاب ایسا سردارِ بنی مخزوم، جو کبھی عکاظ کے میلوں میں چمپئن ہوا کرتا تھا اور جوکہ آج بھی عرب کا سردار ہے بلکہ ’سپریم پاور‘ کا فرماں روا ہے۔۔ حبش کے سیاہ فام بلالؓ کو توقیر دیتے

ہوئے آج یوں گویا ہوتا ہے:
ہذا سیدنا اَعتقہ سیدنا اَبو بکر!(8)
یہ ہمارے آقا ہیں، اِن کو ہمارے آقا ابو بکرؓ نے آزاد کیا تھا!!!!!“
 کون ہے جو اِس منظر پر قربان نہ ہوجائے!!! عرب کا وہ ریگزار اور اُس کے وسط میں ایسا مہکتا پھول!!!
خدایا! کون ہے جس کے دم سے ایک ایسا بنجر لہلہانے لگا؟؟؟!!!
 ٭٭٭٭٭وہ کون مبارک ہستی ہے جس نے معصوم لڑکیوں کو زندہ درگور کر دینے کی سفاک رسم عرب میں درگور کرائی؟ صرف دو آیات جو عرب کی کایا پلٹ گئیں! جنہیں پڑھتے ہوئے عربوں کی ہچکی بندھ جایا کرتی تھی!؟ سننے والے سہم جاتے تھے!؟ یہ دو مختصر آیتیں جو اِس گناہ میں ملوث رہ چکے لوگوں کے گرد حصار باندھ کر کھڑی ہوجاتی تھیں یہاں تک کہ ضمیر کی قید بن جاتیں بلکہ تو پھندا نظر آتیں:
وَإِذَا الْمَوْؤُودَة سُئِلَتْ بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ (التکویر: 9-8)
 اور جس دن زندہ درگور کر دی جانے والی معصوم جان سے پوچھا جائے گا، بھلا کس جرم میں وہ مار دی گئی تھی“؟
٭٭٭٭٭
 ایک ’کم زور‘ مخلوق جو کبھی خود ’ترکہ‘ شمار ہوتی تھی، کس نے اس کو وراثت میں ’زورآور‘ کے ساتھ باقاعدہ ”حصہ دار“ بنا دیا:
 لِّلرِّجَالِ نَصيِبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاء نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا (النساء: 7)
 مردوں کے لئے حصہ ہے اُس میں جو ماں باپ اور اعزاءو اقارب چھوڑ گئے۔ عورتوں کے لئے حصہ ہے اُس میں جو ماں باپ اور اعزاءو اقارب چھوڑ گئے۔ ترکہ چاہے تھوڑا ہے چاہے زیادہ۔ حصہ مقرر ہے
 کہاں وہ خود ’ترکہ‘ تھی، کہاں اب وہ ’ترکہ‘ میں حصہ بٹاتی ہے، کیونکہ اِس قوم میں ایک نبی مبعوث ہو چکا ہے!
 سورہ ٔ نساءکی تفسیر کرنے والا کوئی مؤلف نہ ہوگا جس نے یہ ذکر نہ کیا ہو کہ باپ مر جاتا تو بیٹے صرف اپنی سگی ماں کو چھوڑنے کے روادار ہوتے اور، باپ کے مرتے ہی، اُس کی باقی بیوگان کے گلے میں پٹکے ڈال دینے کیلئے بھاگتے کہ ’یہ میری ہوئی‘۔۔ اور اِس جہالت کے مدمقابل یہ نبی جو خدا کے حق کے سوا کبھی کسی بات پر غضب ناک ہوتا نہ دیکھا گیا، خدائی دستور یوں جاری کراتا ہے:
وَلاَ تَنكِحُواْ مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاء إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَة وَمَقْتًا وَسَاء سَبِيلاً (النور:22)
 اور ان عورتوں سے زوجیت نہ کرو جن سے تمہارے باپ کی زوجیت رہی، سوائے وہی جو بس پہلے ہو لیا، یہ بے حیائی ہے اور گھناؤناپن، اور برے انجام کو پہنچانے والا ہے
 اور اِس خدائی دستور پر سختی ایسی کہ براءبن عازبؓ کہتے ہیں: میں نے اپنے چچا کو سرکاری جھنڈا لہرائے جاتا دیکھا۔ پوچھا، تو کہنے لگے:۔

 ”رسول اللہﷺ نے روانہ فرمایا ہے کہ ایک شخص جس نے اپنے باپ کی منکوحہ کو اپنے گھر میں ڈال لیا ہے، اُس کا مال ضبط اور اُس کو سزائے موت دے کر آؤں“۔ یہ حدیث چاروں سنن میں آئی ہے، جبکہ ترمذی میں الفاظ ہیں: ”اُس آدمی کی طرف، جس نے اپنے باپ کی منکوحہ کو گھر میں ڈال رکھا ہے، کہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں اُس کا سر لا کر پیش کروں“ (سنن النسائی: کتاب النکاح: باب: نکاح ما نکح الآباء)
٭٭٭٭٭
 عرب کا وہ ماحول ذرا ذہن میں لائیے جہاں چند دھیلوں کیلئے آدمی کا خون کر دینے سے دریغ نہیں ہوتا۔ لُوٹنے کیلئے راستوں میں گھات لگا کر بیٹھا جاتا ہے۔ دوسرے کی کسی چیز کی حرمت ہو، اِس کا تو سوال ہی نہیں۔ مال، نہ جان، نہ آبرو، کسی چیز کی عصمت نہیں۔ خود آدمی کو بیچ کھایا جاتا ہے۔ جو جس کے ہاتھ چڑھا وہ اُس کا!ایک دوسرے کا حق دبانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا، بلکہ اِس پر فخریہ کارنامے سنائے جاتے ہیں!
 اِدھر سورہ ٔ نور کی ایک آیت ہے۔۔۔۔ جب تک آپ اِس کا سادہ مفہوم پڑھتے ہیں اور تفسیر میں بیان کئے گئے اِس کے سیاق و سباق میں نہیں جاتے تو حیران ہونے لگتے ہیں کہ کیا یہ بھی کوئی ایسی بات تھی جس کو تفصیلاً بتا دینے کیلئے آیات اتریں:
 اندھے پر کچھ حرج نہیں، لنگڑے پر کچھ حرج نہیں، بیمار پر کچھ حرج نہیں، تمہارے اپنے اوپر کچھ حرج نہیں، کہ

متقدمین محدثین اور شیعہ


متقدمین محدثین اور شیعہ :۔
 تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شروع میں تشیع محض ایک سیاسی رجحان تھا جو بنو امیہ کے مقابلے میں اہل بیت کے لیے مسلمانوں کے بعض گروہوں میں موجود تھا۔ اور اس رجحان نے بہت بعد میں غلو کی صورت میں رافضیت کی شکل اختیار کی ہے۔ شارح بخاری اور معروف محدث علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ فرماتے ہیں: التشيع في عرف المتقدمين هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان، وأن عليا كان مصيبا في حروبه، وأن مخالفه مخطئ، مع تقديم الشيخين وتفضيلهما، وربما اعتقد بعضهم أن عليا أفضل الخلق بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإذا كان معتقد ذلك ورعا دينا صادقا مجتهدا فلا ترد روايته بهذا، لا سيما إن كان غير داعية. وأما التشيع في عرف المتأخرين فهو الرفض المحض ، فلا تقبل رواية الرافضي الغالي ولا كرامة انتهى. "تهذيب التهذيب" (1/81) چنانچہ متقدمین کےنزدیک شیعہ اورروافض میں بہت فرق ہے ۔ ان کامعاملہ آج کل کےشیعہ حضرات کی طرح نہ تھاکہ ان کے روافض کے مابین کچھ فرق وامتیاز نہیں رہا ۔ متقدمین کےنزدیک شیعہ سےمرادوہ لوگ تھے جوصرف تفضیل کے قائل تھے یعنی علی رضی اللہ عنہ کوعثمان رضی اللہ عنہ سےافضل جانتےتھے،اگرچہ عثمان رضی اللہ عنہ کوبرحق امام اورصحابی سمجھتے تھے۔اس طرح کے کچھ لوگ اہل سنت میں بھی گذرے ہیں جو علی رضی اللہ عنہ کوعثمان رضی اللہ عنہ سےافضل قراردیتےتھےلہذایہ ایسی بات نہیں جوبہت بڑی قابل اعتراض ہو۔ہاں کچھ غالی شیعہ شیخین ابوبکروعمررضی اللہ عنہما سےعلی رضی اللہ عنہ کوافضل سمجھتےتھےاگرچہ وہ شیخین رضی اللہ عنہماکےمتعلق اس عقیدہ کے حامل بھی تھے کہ وہ برحق امام اورصحابی رضی اللہ عنہم تھےلیکن علی رضی اللہ عنہ کوافضل قراردیتے تھے اوران کی بات زیادہ سےزیادہ بدعت کےزمرہ میں آتی ہے ۔ حدیث اور بدعتی راوی: کسی بھی راوی کے مقبول ہونے کے لیے دو بنیادی شرطیں ہیں : ١۔ اس کا حافظہ قابل اعتماد ہو ٢۔ صاحب عدالت ہو ۔ ہمارا زیر بحث مسئلہ دوسری شرط سے متعلق ہے ۔ کیونکہ عدالت کی شرط سے بدعتی روای خارج ہوجاتے ہیں ۔ اور
 تشیع یا رفض ایک بدعت ہے لہذا اصل یہ ہے کہ کسی بھی غالی شیعہ یا رافضی کی روایت کو قبول نہیں کیا جائے گا چاہے وہ حفظ و ضبط کا پہاڑ ہی کیوں نہ ہو ۔لیکن بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی کیونکہ مبتدعہ کی بہت ساری اقسام ہیں مختلف اصناف ہیں کچھ ایسے ہیں جن کی بدعت ان کی روایت پر اثر انداز نہیں ہوتی یا وہ کسی بدعت صغری میں مبتلا ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ وہ نیک صادق اللہجہ اور دین دار ہوتے ہیں جبکہ کچھ روای اس کے بر عکس ہوتے ہیں اور جھوٹ بولنا اور تقیہ کرنا ان کے نزدیک جزو ایمان ہے جیساکہ حافظ ذہبی نے لکھا ۔اس لیے محدثین نے اس سلسلے میں کچھ شروط ذکر کیں کہ کن کن بدعتیوں کی روایات کن کن حالات میں قبول ہوں گی (علوم الحدیث لابن الصلاح اور اس کے متعلقات میں تفصیل ملاحظہ کی جا سکتی ہے )اس سلسلے میں جو راحج مذہب اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ بدعتی کی روایت چند شرائط کے ساتھ مقبول ہے ۔ 1. وہ صدوق ہومتہم بالکذب نہ ہو،عادل ہو۔ 2. بدعت مکفرہ میں مبتلا نہ ہو ۔ 3. بدعت کی طرف دعوت نہ دیتا ہو ۔ 4. اس کی روایت میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے اس کے بدعتی مذہب کی تائید ہو رہی ہو ۔ یہ موٹی موٹی شرائط ہیں جن کی موجودگی میں کسی بدعتی کی روایت کو قبول کیا جائے گا ۔ لیکن ایک بات ذہن میں رکھیں چونکہ یہ دو جمع دو برابر چار حساب کے قواعد نہیں لہذا بعض جگہوں پر محدثین نے ان قواعد سے اختلاف بھی کیا ہے مطلب کئی جگہوں پر ان شرائط سے تساہل کیا ہے اور بعض مقامات پرتشدد بھی کیا ہے اور یہ سب کچھ دلائل و قرائن کے ساتھ تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ یہ خواہشات نفس کی پیروی ہے ۔ صحیح بخاری اور شیعہ راوی: یہ درست ہے کہ صحیح بخاری میں شیعہ و دیگر بدعتیوں کی روایات موجود ہیں بلکہ بعض ایسے بدعتی بھی ہیں جو مذکورہ تمام شرائط پر پورے نہیں اترتے لیکن پھر بھی ان کی روایات کو نقل کیا گیا ہے ۔ اس کی مکمل تحقیق کی گئی ، محدثین نے امام بخاری کی صحیح کا تتبع کر کے بدعتی کے بارے میں ان کا موقف سمجھنے کی کوشش کی اور امام بخاری کے اس سلسلے میں معیار کا کھوج لگایا جو کہ درج ذیل نقاط میں بیان کیا جا سکتا ہے : ١۔ صحیح بخاری میں بدعت مکفرہ والا راوی کوئی نہیں ہے ۔ ٢۔ اکثر ان میں سے غیر داعی ہیں کچھ ایسے ہیں جو داعی تھے لیکن پھر توبہ کر چکے تھے ۔ ٣۔ اکثر روایات متابعات و شواہد میں ہیں ۔ ٤۔ بعض ایسے ہیں جن کا بدعتی ہونا ہی ثابت نہیں ۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں باحث أبو بکر الکافی کا رسالہ منہج الإمام البخاری فی تصحیح الأحادیث و تعلیلہا ص ١٠٥ خاصۃ ) خلاصہ یہ کہ بخاری ومسلم میں کسی ایسے شیعہ راوی کی روایت نہیں ہے کہ جو رافضی ہو یا شیخین اور ازواج مطہرات پر لعن طعن کرتا ہو وغیرہ۔ اگر کسی کو شیعہ راوی سے محدثین کے روایت کرنے کے اصولوں کے بارے جاننے کا اشتیاق ہو تو اس موضوع پر محمد خلیفہ الشرع کی کتاب "منهج الإمامين البخاري ومسلم في الرواية عن رجال الشيعة في صحيحيهما" اور کریمہ سودانی کی کتاب "منهج الإمام البخاري في الرواية عن المبتدعة من خلال الجامع الصحيح : الشيعة أنموذجا" کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ استفادہ تحریر :بخاری میں شیعہ راویوں سے روایات از حافظ زبیر