Friday, January 13, 2017

کتاب الٰہی کی، کیسے حفاظت کی گئی؟


کتاب الٰہی کی، کیسے حفاظت کی گئی؟
ڈاکٹر محمود احمد غازی اپنی کتاب محاضرات حدیث میں تحریر فرماتے ہیں ”کتاب الٰہی کے تحفظ کے لیے اللہ رب العزت نے دس چیزوں کو تحفظ دیا، یہ دس چیزیں وہ ہیں، جو قرآن پاک کے تحفظ کی خاطر محفوظ کی گئی ہیں“ ۔
 (۱) قرآن کی کا متن یعنی اس کے بعینہ وہ الفاظ جو اللہ رب العزت نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطہ سے یا وحی کے کسی اور طریق سے نبی آخرالزماں صلى الله عليه وسلم پر نازل کئے، آپ صلى الله عليه وسلم پر جب وحی نازل ہوتی، تو آپ فوراً کاتبین وحی میں سے کسی سے کتابت کروالے لیتے، پھر  صحابہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی زبانِ اقدس سے بھی اُسے سنتے، اور جو تحریر کیا ہوا ہوتا، اُسے بھی محفوظ کرلیتے، اس طرح ۲۳/سال تک قرآن، نزول کے وقت ہی لکھا جاتا رہا، صحابہ نے اسے حفظ بھی یاد کیا، کیوں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اس کے حفظ کی بڑی فضیلتیں بیان کی ۔ ایک روایت کے مطابق صحابہ میں سب سے پہلے حفظِ قرآن مکمل کرنے والے حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ ہیں۔
دورِ نبوی صلى الله عليه وسلم کے بعد دورِ ابی بکر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ، اور دیگر صحابہ کے کے مشورے سے اس کی تدوین عمل میں آئی، یعنی اس کو یکجا کر لیا گیا اور دورِ عثمانی میں اس کی تنسیخ‘ عمل میں آئی، یعنی اس کے مختلف نسخے بناکر کوفہ، بصرہ، شام، مکہ وغیرہ جہاں جہاں مسلمان آباد تھے بھیج دیے گئے، یہ تو تحریری صورت میں حفاظت کا انتظام ہوا، ا س کے علاوہ اس کو لفظ بلفظ یاد کرنے کا التزام کیا گیا، وہ الگ۔ اس طرح قرآن سینہ و سفینہ دونوں میں مکمل لفظاً محفوظ ہوگیا، اور یہ سلسلہ نسلاً بعد نسلٍ آج بھی جاری ہے، قیامت تک جاری رہے گا، انشاء اللہ، اللہم اجعل القرآن ربیع قلوبنا و جلاء

کھسرے اور مخنث کے اسلام میں مقام پر اعتراض

اعتراض
اہل عقل و فہم سے اک سوال ........
کھسرے کے مرنے کے بعد کیا ہونا جنت ملنی یا دوزخ ........
اگر جنت میں گیا تو حور ملنی یا کسی جنتی کی بیوی بن جانا......
خود سے علم تو بتائیں یا کسی مولوی سے سنا جو وہ بتائیں .....
نوٹ : گالی اور کفر کا فتوی پاس رکھنا ... بس جنت میں کھسرے کا درجہ بتا دو اسلام کی تعلیم سے..
جواب:
خنثی مذکر
خنثی مؤنث
دو علی حدہ اصطلاحات ھیں
خنثی مذکر کے تمام احکام مردوں والے ھیں
.اور خنثی مؤنث کے تمام احکام مونث والے ھیں

اس پر ایک ملحد غالب کمال کو جواب دیا تھا۔ وہی پیسٹ کرتا ہوں۔
نیم سائنسدان جناب غالب کمال صاحب جیسے لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام نے ہجڑوں ( خواجہ سراوں ) کو حقوق نہیں دیئے وہ دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ

Thursday, January 12, 2017

بخار کا جہنم سے تعلق ہے

حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "بخار دوزخ کی لپٹ (حرارت، تپش) میں سے ہے، اسے پانی سے ٹھنڈا کرو۔" (صحیح البخاری، 3024)
کچھ ملحدین و منکرین حدیث یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ یہ حدیث عقل کے خلاف ہے ،  بخار اور دوزخ کا آپس میں کیا تعلق ہو سکتا ہے؟
مذکورہ حدیث میں ان کے تعلق کی وضاحت نہیں کی گئی۔
حدیث کا عمومی معنی:
بعض  محققین مثلاً حافظ ابن حجر العسقلانی اور المناوی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بخار کی حرارت جہنم کی حرارت کی طرح ہے اور بخار کی یہ تپش انسان کو دوزخ کی آگ کے عذاب کا خوف دلاتی ہے۔ زین الدین محمد المناوی لکھتے ہیں:
"
بخار کی حرارت دوزخ کی آگ کی حرارت کے مثل ہے جو انسان کے

حضور کا جونیہ سے نکاح اور حدیث

حضور کا جونیہ سے نکاح اور حدیث

مستشرقین ، ملحدین و منکرین حدیث صحیح بخاری کی حضور ﷺ کے جونیہ کے ساتھ نکاح والی ایک حدیث کو لوگوں کو نبی کریم ﷺ کی پاک شخصیت کے بارے میں گمراہ کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں اور منکرین حدیث کی طرف سے اس روایت کے سہارے ذخیرہ حدیث پر سوال اٹھائے جاتے ہیں ۔ ایک منکر حدیث لکھتے ہیں : آبادی سے دور کھجور کے باغ میں جونیہ نامی عورت لائی گئی تھی جسے رسول نے کہا کہ ہبی نفسک لی تو خود کو میرے حوالے کر دے تو اس عورت نے جواب میں کہا کہ وہل تہب الملکۃ نفسہا لسوقۃ ؟ یعنی کیا کوئی شہزادی اپنے آپ کو کسی بازاری شخص کے حوالے کر سکتی ہے؟(حوالہ کتاب بخاری ، کتاب) کچھ عرصہ قبل ایک فیس بکی متجدد المعروف قاری صاحب نے انتہائی مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے اس واقعہ کی فلمی اندازمیں منظر نگاری کی اور اپنے اس سکرپٹ کو حدیث اور امام بخاری کا بیان باور کرانے کے بعد اس سے حضور ﷺ کی توہین ثابت کرنے کی کوشش کی اور لکھا کہ یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے.حضورﷺ اور آپ کی ازواج کی شان کے خلاف ہے.حضورﷺ کے اخلاق عالی کے خلاف ہے۔ اس واقعہ کو جس انداز میں یہ سب لوگ پیش کرتے ہوئے ذخیرہ حدیث کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں وہ خیر خواہی کے نام پر حدیث کا انکار

Tuesday, January 10, 2017

حضرت محمدﷺ پر خودکشی کی کوشش کی تہمت اور حدیث

حضرت محمدﷺ پر خودکشی کی کوشش کی تہمت اور حدیث
 عیسائ مشنری بخاری شریف کےاُس حدیث جو حضرت محمد ﷺ کے مبینہ خودکش کوشش کے بارے میں ہےبہت پرجوش ہیں اور اس سے نتیجہ اخذ کرنے میں بہت دور جاتے ہیں.آئیے روایت کا تجزیہ کرتے ہیں اور دیکھتے ھیں کہ دعویٰ روایات
کے قواعد کی جانچ پڑتال کے مطابق کتنا سچ ہے؟
الحدیث:

رسول اللہ ﷺ کی توہین، توہین صحابہ و ازواج مطہرات

معیار دوم، رسول اللہ ﷺ کی توہین:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف جو روایت ہوگی وہ رد کی جائے گی۔یہ اصول بھی 
 ہر محدث کا ہے
منکرین حدیث کوئی نیا اجتہاد نہیں لائے کہ قرآن کے خلاف ہر روایت رد ہے، شان نبوت کے خلاف ہر روایت رد ہے، قرآن وحدیث سے کسی مسئلہ میں جو مسلمہ اصول منقول ہو اسکے خلاف روایت متروک ہے اس اصول کو سامنے رکھ کر ہر ایک نے استخراج کیا۔ وہ جس شخصیت کو مجروح کرتے ہیں پھر اسکی کوئی بات نہیں لیتےخواہ کتنی ہی اعلی پائے کی کیوں نہ ہو البتہ جس شخصیت کو قابل قبول گردانیں اسکی بات کو کتاب اللہ اور سنت پر پیش کرکے ردواخذ کا فیصلہ کرتے ہیں۔اب کچھ کوتاہ عقلوں کو ان میں یہ مخالفتیں نظر آنے لگی ہیں تو قصور چاند کا نہیں انگلی پر لگی ہوئی نجاست کا ہے حضور چاند سڑا ہوا نہیں نکلا ۔
 
اور اگر یہ سب تسلیم بھی کرلیا جائے تو جن کتب کو اور محدثین کو

سیرت کا مطالعہ کیوں ضروری ہے ؟

سیرت کا مطالعہ کیوں ضروری ہے ؟
ڈاکٹر نور احمد نور، فزیشن ملتان لکھتے ہیں
 کا فی عرصہ کی با ت ہے کہ جب میں لیا قت میڈیکل کا لج جامشورہ میں سروس کررہا تھا تو وہا ں لڑکو ں نے سیر ت نبی ا کا نفرس منعقد کرائی اورتمام اساتذہ کرام کو مدعو کیا ۔ چنانچہ میں نے ڈاکٹر عنایت اللہ جو کھیو ( جو ہڈی جوڑ کے ما ہر تھے ) کے ہمرا ہ اس مجلس میں شرکت کی۔ اس مجلس میں ایک اسلامیات کے لیکچرار نے حضور اقدس کی پرائیویٹ زندگی پر مفصل بیان کیا اور آپ کی ایک ایک شادی کی تفصیل بتائی کہ یہ شا دی کیوں کی او ر اس سے امت کو کیا فائدہ ہوا۔ یہ بیان اتنا موثر تھا کہ حاضرین مجلس نے اس کو بہت سرا ہا ۔
 کانفرس کے اختتام پر ہم دونوں جب

Monday, January 9, 2017

محدثین معصوم نہ تھے ان سے خطا ممکن ہے

جب بھی حدیث کا دفاع کیا جائے تو منکرین حدیث عموما یہ سوال کرتے ہیں۔ تو پہلی بات یہ واضح رہے کہ صحیح بخاری کے دو گتوں کے مابین جو کچھ ہے، اس سب کو کوئی بھی منزل من اللہ نہیں کہتا۔ صحیح بخاری میں "منزل من اللہ" ہے نہ کہ کل صحیح بخاری "منزل من اللہ" ہے۔دوسری اور اہم تر بات یہ ہے کہ حدیث کو وحی کہا جاتا ہے نہ کہ صحیح بخاری کو۔ اور صحیح بخاری میں حدیث موجود ہے نہ کہ صحیح بخاری کی ہر بات حدیث ہے۔ حدیث سے مراد وہ روایت ہے کہ جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قول، فعل اورتقریر موجود ہو اور صحیح بخاری میں صحابہ کے اقوال بھی ہیں اور تابعین کے بھی۔
سلف کے اقوال بھی ہیں اور ائمہ کے بھی۔
 تیسری اور اہم تر بات یہ ہے کہ حدیث کو لفظی وحی کوئی بھی نہیں کہتا بلکہ حدیث معنوی وحی ہے۔ پس حدیث کا معنی "منزل من اللہ" ہے جبکہ حدیث کے الفاظ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہیں اگر وہ

سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراضات

فقہ پہ اعتراضات کی فہرست

فقہ پہ اعتراضات کی فہرست

اسلام پر اعتراضات کی فہرست

قرآن پر اعتراضات کی فہرست

قرآن پر اعتراضات کی فہرست


تدوین قرآن
 البینۃ کی گم شدہ آیات کی حقیقت

نظریہ الحاد فہرست

الحاد انسانیت سے فرار کا نام

ملحدین صبح شام انسانیت کا راگ الاپتے رہتے ہیں لیکن مذہب الحاد میں انسانیت کے قواعد و ضوابط کیا ہیں؟ الحاد کی تعلیمات کے مطابق تو ہر انسان آذاد ہے اور دوسروں سے بے فکر ہو کر جیسی چاہے اپنی مرضی کی زندگی گزارے
 ملحدوں کے نزدیک رشتے ناطوں کا اول تو وجود ہی نہیں ہے بس ہر کوئی مرد یا عورت ہی ہے اور جسمانی بھوک مٹانے کا اک ذریعہ, اور بالفرض اگر رشتے ناطے ہیں تو ان سے وابستہ کیا حقوق و فرائض ہیں الحاد میں؟ کسی کے کام آنا ہے تو آو اور نہیں آنا تو تمہاری مرضی, کوئی بھوک سے مرتا ہے تو مرے کون سا فرض ہے اس کی بھوک مٹانا. کیا والدین, بہن بھائی, قرابت دار, مسکین, یتیم, ہمسائے, اور باقی تمام
انسانوں کے کام آنے کا لازم حکم رکھتا ہے الحاد؟
 انسانوں کے کام نہ آنے کی صورت میں الحاد کسی کو سزا دینے کا اختیار رکھتا ہے؟
الحاد کے برعکس دین اسلام ہر انسان کو ایک مکمل ضابطہ حیات پیش کرتا ہے, اسلام میں نہ صرف انسانیت کا حکم ہے بلکہ اس کی بنیاد پر جزا و سزا ہے.
 آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ اللہ اپنے بندوں کو کتنے واشگاف الفاظ میں انسانیت کے احکامات دیتا ہے اور اپنی پکڑ سے ڈراتا ہے.

Monday, January 2, 2017

حدیث پر اعتراضات کی فہرست

حضرت ابوہرہ پر مستشرقین اور منکرین حدیث کے اعتراضات

کاپی پیسٹ..... بشکریہ محدث فورم
از: علامہ محمد عرفہ، مجلہ نورالاسلام جلد پنجم صفحہ 639
...................................

 علامہ شیخ محمد عرفہ ممبر جمعیۃ کبارالعلماء نے ازہر یونیورسٹی کے مجلہ''نور الاسلام''کی جلد پنجم میں صفحہ ۶۳۹ پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے متعلق ایک تحقیقی مقالہ سپر د قلم کیا ہے جس میں اس جلیل القدر راوی کا دفاع کیا اور ان اتہامات کا جواب دیا جو انگریزی انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کے مقالہ نگاروں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر باندھے ہیں ہم ذیل میں اس قیمتی مقالہ کا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔
مستشرق گولڈ زیھر:
 مشہور مستشرق گولڈ زیہر نے انسائیکلو پیڈیا آف اسلام جلد اول عدد ہفتم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر چند اتہامات باندھے ہیں جو کو کسی علمی وتاریخی دلیل پر مبنی نہیں ہیں۔ان اتہامات کا خلاصہ یہ ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیثیں روایت کرنے کے سلسلہ میں امانت ودیانت کا خیال نہیں رکھتے تھے۔گولڈ زیہر کا کہنا ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ زہد وتقویٰ کے بل بوتے پر حدیثیں گھڑلیا کرتے تھے اور جو لوگ براہ راست ان سے حدیثیں رایت کرتے تھے وہ بھی ان کی مرویات پر شک وشبہ کا اظہار کرتے تھے بلکہ بالفاظ صحیح تر وہ ان کا مذاق اڑاتے تھے ۔ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ عادت تھی کہ معمولی باتوں کو بھی بڑے دلکش انداز میں بیان کرتے تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑے زندہ دل اور ظریف الطبع تھے۔ یہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی خوش مذاقی ہی تھی جو بہت سی دلچسپ کہانیوں کی موجب بنی۔لطف یہ ہے کہ گولڈزیہر اپنی اسلام دشمنی پر پردہ ڈالنے کے لئے ان اتہامات کو اسلامی کتب کی جانب منسوب کرتا ۔اس سے دراصل وہ یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ یہ واقعات بجائےخود درست ہیں ورنہ مسلم مصنفین ان کو بیان نہ کرتے اس کا یہ انداز بڑی گہری اور پر فریب چال پر منبی ہے۔ ہم ان شاء اللہ اس کی بہت اچھی طرح پردہ دری کریں گے۔
اتہام کی حقیقت:
 اس میں شبہ نہیں کہ حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ جن کی ذات گرا می

لونڈی کے پردہ اور ستر پر اعتراض


دو احادیث پر منکرین حدیث اور ملحدین کا اعتراض
 
آئیے پہلے احدیث دیکھتے ہیں :
پہلی حدیث :
الكتب » السنن الكبرى » كتاب الصلاة » جماع أبواب لبس المصلي » باب عورة الأمة
إظهار التشكيل|إخفاء التشكيل
مسألة: التحليل الموضوعي
31277 (
وأخبرنا ) أبو القاسم عبد الرحمن بن عبيد الله الحرفي ببغداد ، أنبأ علي بن محمد بن الزبير الكوفي ، ثنا الحسن بن علي بن عفان ، ثنا زيد بن الحباب عن حماد بن سلمة ، قال : حدثني ثمامة بن عبد الله بن أنس عن جده أنس بن مالك قال : كن إماء عمر - رضي الله عنه - يخدمننا كاشفات عن شعورهن ، تضرب ثديهن .
(
سنن الکبری للبیہقی 3038, تفسیر یحیی بن سلام 739/2 و 441/11)۔
"" سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی باندیاں ہماری خدمت کیا کرتی تھیں۔ ان کے سر کے بالوں پر کپڑا نہ ہوتا تھا انکی چھاتیاں حرکت کرتی تھیں ""
قال الشيخ : والآثار عن عمر بن الخطاب - رضي الله عنه - في ذلك صحيحة ، وإنها تدل على أن رأسها ورقبتها وما يظهر منها في حال المهنة ليس بعورة ،
""سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے آثار اس بارے میں صحیح ہیں اور دلالت کرتے ہیں کہ باندی کا سر، گردن اور کام کرتے ہوئے جو چیز ظاہر ہو جائے، ستر نہیں ہے۔"
اس روایت پر مندرجہ ذیل اعتراضات ہو سکتے ہیں؛
11
۔ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم عورت کے برہنہ سینے کو دیکھ رہے ہیں۔ لہذا ان کے نزدیک ان کا ستر ناف سے گھٹنوں تک ہی تھا۔؟؟؟؟؟
2۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی باندیاں دوسروں کی خدمت کیوں کرتی تھیں؟؟؟
3۔ ان باندیوں کو سر اور سینے پر کپڑا لینے کی اجازت کیوں نہ تھی؟؟؟
جواب :
اول یہ کہ اس زمانے میں غلام وہ انسان تھے کہ جو جنگی قیدی بن کر آتے تھے،پھر دشمن کی قوت توڑنے اور حوصلے پست کرنے کیلئے انہیں واپس نہ کیا جاتا تھا،بلکہ