Tuesday, January 10, 2017

رسول اللہ ﷺ کی توہین، توہین صحابہ و ازواج مطہرات

معیار دوم، رسول اللہ ﷺ کی توہین:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف جو روایت ہوگی وہ رد کی جائے گی۔یہ اصول بھی 
 ہر محدث کا ہے
منکرین حدیث کوئی نیا اجتہاد نہیں لائے کہ قرآن کے خلاف ہر روایت رد ہے، شان نبوت کے خلاف ہر روایت رد ہے، قرآن وحدیث سے کسی مسئلہ میں جو مسلمہ اصول منقول ہو اسکے خلاف روایت متروک ہے اس اصول کو سامنے رکھ کر ہر ایک نے استخراج کیا۔ وہ جس شخصیت کو مجروح کرتے ہیں پھر اسکی کوئی بات نہیں لیتےخواہ کتنی ہی اعلی پائے کی کیوں نہ ہو البتہ جس شخصیت کو قابل قبول گردانیں اسکی بات کو کتاب اللہ اور سنت پر پیش کرکے ردواخذ کا فیصلہ کرتے ہیں۔اب کچھ کوتاہ عقلوں کو ان میں یہ مخالفتیں نظر آنے لگی ہیں تو قصور چاند کا نہیں انگلی پر لگی ہوئی نجاست کا ہے حضور چاند سڑا ہوا نہیں نکلا ۔
 
اور اگر یہ سب تسلیم بھی کرلیا جائے تو جن کتب کو اور محدثین کو
غیر معتبر ثابت کرنے پر حواس خمسہ مع متعلقات کا زور صرف ہورہا ہے ان میں یہ تمیز کس اصول کی بناء پر پیدا کی جائے گی کہ اسی شخص کی یہ بات درست ہے اور یہ غلط؟ اس بات کا جواب صرف اسی سے ممکن ہے جسکی جرح وتعدیل کسی اصول کے مطابق ہو۔اندھی لاٹھی چلانے والا اسی طرح ہنومان کا نائب بن کر اپنی لنکا ہی جلا سکتا ہے اور کچھ نہیں۔لہذا دو میں سے ایک کام کیجئے۔یا تو اصول ظاہر کردیجئے یا اصل نیت۔
اگر آپ کی نیت درست ہے تو یہ اصول اسی انداز میں قرآن پر اپلائی کرکے دیکھیے
  اگر قرآن کی کسی آیت سےر سول اللہﷺ کی سیرت بظاہر واغدار معلوم ہوتی ہو تو کیا آپ یہی ردعمل وہاں بھی ظاہر کریں گے ؟ کیا پھر قرآن کی اس آیت کو بھی (نعوذباللہ) مردود سمجھا جائے گا۔ مثلاً قرآن میں ہے:
1.
 عَبَسَ وَ تَوَلّٰۤىۙ اَنْ جَآءَهُ الْاَعْمٰى.) عبس: 1-22)"اس نے تیوری چڑھائی اور منہ پھیر لیا کہ اس کے پاس ایک نابینا آیا
"
یہ آیت ایک اخلاقی عیب کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ جس سے آپ کی سیرت داغدار ہوتی ہے۔
2.
.اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًاۙلِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ.) (الفتح: 1-22)"بے شک ہم نے آپ کو فتح مبین دے دی ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردے"۔
3.
.وَ لَوْ لَاۤ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ اِلَيْهِمْ شَيْـًٔا قَلِيْلًاۗ.)(بنی اسرائیل: 744)"اور اگر ہم تمہیں ثابت قدم نہ رکھتے تو تم کسی قدر ان (مشرکین مکہ) کی طرف مائل ہو ہی چلے تھے"
 
بتایے! کیا یہ آیت رسول اکرم ﷺ کے کسی کمزور پہلو کی نشاندہی نہیں کر رہی ؟ اور اس سے آپﷺ کی سیرت داغدار نہیں ہوتی؟اب سوال یہ ہے کہ اگر یہی باتیں قرآنی آیات کے بجائے احادیث میں مذکورہوتی تو کیا انہیں یکدم مسترد نا کردیا جاتا ۔ بات در اصل یہ ہے کہ بھول چوک اور لغزش انسانی فطرت میں داخل ہے اور اس سے انبیاء بھی مبرا نہ تھے۔ انبیاء کی عصمت کا مطلب صرف یہ ہے کہ ان کی لغزشوں پر انہیں مطلع کر دیا جاتا ہے۔
اسی طرح باقی انبیاء کے متعلق آیات ہیں :
حضرت موسیٰ علیہ السلام :{ وَ اَلْقَی الْاَلْوَاحَ وَ اَخَذَ بِرَاْسِ اَخِیْہِ یَجُرُّہٗٓ اِلَیْہِ } (الاعراف)موسیٰ علیہ السلام نے تورات کو پٹخ دیا، اور اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کا سر پکڑ کر اپنی طرف گھسیٹا۔حضرت ہارون علیہ السلام بالکل بے قصور تھے، انہوں نے کہا:{ لَا تَاْخُذْ بِلِحْیَتِیْ وَ لَا بِرَاْسِیْ } (طہ)میرے سر اور داڑھی کو نہ پکڑئیے۔
میں بالکل بے قصور ہوں، انہوں نے میرا کہا نہ مانا، اور بچھڑا پوجا وغیرہ وغیرہ ،
 
کہیے کیا ان آیات میں موسیٰ علیہ السلام کی توہین نہیں ہے کہ غصہ میں آکر کتاب الٰہی کو دے پٹخا، اور اللہ کے ایک مقدس پیغمبر کو مارا، اس کی بے عزتی کی، اور یہ سب کچھ بغیر تحقیق و تفتیش کے کر ڈالا۔
حضرت یعقوب : { وَرَفَعَ اَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَہٗ سُجَّدًا } (یوسف)یوسف علیہ السلام نے ماں باپ کو تخت پر بٹھایا اور وہ سب حضرت یوسف کے لیے سجدہ میں گر گئے۔
 
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ایک رسول نے دوسرے رسول کو سجدہ کیا، بلکہ رسول نے اپنے بیٹے کو سجدہ کیا، کیا یہ انبیاء کی توہین نہیں، کہ نعوذ باللہ اس قسم کے شرک کا ارتکاب کرتے رہے، کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ اکبر اور جہانگیر کے دور میں جو سجدہ بادشاہ کو کیا جاتا تھا، اس کا ماخذ یہی قرآنی آیات تھیں۔
حضرت لوط علیہ السلام :حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کے مقابلہ میں فرمایا:{ لَوْ اَنَّ لِیْ بِِکُمْ قُوَّۃً اَوْ اٰوِیْٓ اِلٰی رُکْنٍ شَدِیْدٍ }کاش مجھے تمہارے مقابلہ کی طاقت ہوتی، یا میں کسی مضبوط قلعہ میں پناہ گزین ہوتا۔
 
کیا یہ توہین نہیں ہے کہ اللہ کا نبی بجائے اللہ کا سہارا ڈھونڈھنے کے دنیاوی وسائل کا سہارا تلاش کر رہا ہے۔
الغرض ان آیات اور ان جیسی دوسری آیات سے (جن کو بخوف طوالت قلم انداز کر رہا ہوں) توہین انبیاء ظاہر و باہر ہے، کوئی اللہ کی نافرمانی کر رہا ہے، ، کوئی حمیت قومی میں سرشار، کوئی کتاب الٰہی اور رسول اللہ کی توہین و تذلیل کرتا نظر آرہا ہے کوئی غیر اللہ کو سجدہ کرتے دکھایا گیا ہے، کوئی اللہ کے بجائے قوت اور قلعہ کی پناہ تلاش کر رہا ہے ، کوئی سانپ سے ڈر کر بھاگ رہا ہے، ، کوئی کسی کی جدائی میں روتے روتے بینائی کھو دیتا ہے، ، کوئی بغیر اجازت کفار کی بستی چھوڑ کر ہجرت کر جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ کہیے ان آیات کے متعلق کیا خیال ہے؟
معیار سوم، توہین صحابہ و ازواج مطہرات ؓ:
11-
سورہ تحریم میں اللہ تعالیٰ نے ایک راز کی بات کا ذکر کرتے ہوئے دو ازواج مطہرات کے سلسلہ میں فرمایا:
(
.اِنْ تَتُوْبَاۤ اِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا.)(التحریم: 44)"اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کر لو تو (یہی بہتر ہے ورنہ) تمہارے دل ٹیڑھے ہوگئے ہیں۔"
22-
سورہ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات ؓ کے دنیوی زندگی اور اس کی زیب و زینت کی طرف میلان کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:
 .يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَ زِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا.) الاحزاب: 28)"اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت کی طلب گار ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دے دوں اور تمہیں اچھی طرح رخصت کردوں"
 
گویا ازواج مطہرات ؓ کا یہ میلان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نظروں مین اتنا ناپسندیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کو حکم دیا کہ اگر وہ اپنے اس میلان سے باز نہیں آتیں تو ان سب کو طلاق دے کر رخصت کر دو۔ بتلائیے! یہ ا زواج مطہرات ؓ کی صریح توہین نہیں؟
صحابہ کرام ؓ کی بات سنئے! صحابہ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں:
1- (.
وَ اِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوَا ا۟نْفَضُّوْۤا اِلَيْهَا وَ تَرَكُوْكَ قَآىِٕمًا.) (الجمعہ: 111)"اور یہ لوگ جب کوئی تجار ت یا تماشا دیکھتے ہیں تو اس کی طرف چلے جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا چھوڑ جاتے ہیں"
22- (.
وَ اِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ لَكٰرِهُوْنَۙ يُجَادِلُوْنَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَيَّنَ كَاَنَّمَا يُسَاقُوْنَ اِلَى الْمَوْتِ وَ هُمْ يَنْظُرُوْنَ.)(الأنفال: 5-6)
 "
اور مسلمانوں کی ایک جماعت اس کو گراں سمجھتی تھی۔ وہ اس حق کے بارے میں اس کے بعد کہ اس کا ظہور ہوگیا تھا، آپ سے اس طرح جھگڑ رہے تھے کہ گویا کوئی ان کو موت کی طرف ہانکا جا رہا ہے اور وہ دیکھ رہے ہیں۔"
3- (.
عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَ عَفَا عَنْكُمْ.)(البقرہ: 187)
 "
اللہ تعالیٰ نے معلوم کرلیا تم اپنی جانوں سے خیانت کرتے تھے۔ پس اللہ رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجہ ہوا اور تمہارا قصور معاف فرمادیا۔"
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ کرام ؓ خطبہ جمعہ کے وقت تجارت کا مال یا کوئی تماشا دیکھ کر نبی اکرمﷺ کو کھڑا چھوڑ جاتے تھے۔ بعض جہاد کو ناپسند کرتے تھے۔ بعض ماہ رمضان میں رات کو مباشرت کرلیتے تھے اور بعض نے جنگ احد میں بزدلی بھی دکھائی اور رسولﷺ کی نافرمانی بھی کی تھی۔ اب دیکھئے ان واقعات سے کبار صحابہ ؓ کی توہین ہوتی ہے یا نہیں؟ اگرمنکرین حدیث ان ہی واقعات کی تشریح یا ایسی کوئی دوسری بات ذخیرہ احادیث میں دیکھ لیں تو اسے جعلی قرار دے دیں کہ اس سے صحابہ کی توہین ہوتی ہے ۔کیا اسی اندھا دھند انداز میں بغٖیر تحقیق کیے قرآنی آیات کے متعلق بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ کیونکہ یہ اس معیار پر قرآنی آیات بھی پوری نہیں اترتیں اس لیے یہ بھی من گھڑت ہیں ؟
(
جاری ہے)

No comments:

Post a Comment