دو احادیث پر منکرین حدیث اور ملحدین کا اعتراض
آئیے پہلے احدیث دیکھتے ہیں :
آئیے پہلے احدیث دیکھتے ہیں :
پہلی
حدیث
:
الكتب » السنن الكبرى »
كتاب الصلاة » جماع أبواب لبس المصلي » باب عورة الأمة
إظهار التشكيل|إخفاء التشكيل
مسألة: التحليل الموضوعي
31277 ( وأخبرنا ) أبو القاسم عبد الرحمن بن عبيد الله الحرفي ببغداد ، أنبأ علي بن محمد بن الزبير الكوفي ، ثنا الحسن بن علي بن عفان ، ثنا زيد بن الحباب عن حماد بن سلمة ، قال : حدثني ثمامة بن عبد الله بن أنس عن جده أنس بن مالك قال : كن إماء عمر - رضي الله عنه - يخدمننا كاشفات عن شعورهن ، تضرب ثديهن .
(سنن الکبری للبیہقی 3038, تفسیر یحیی بن سلام 739/2 و 441/11)۔
إظهار التشكيل|إخفاء التشكيل
مسألة: التحليل الموضوعي
31277 ( وأخبرنا ) أبو القاسم عبد الرحمن بن عبيد الله الحرفي ببغداد ، أنبأ علي بن محمد بن الزبير الكوفي ، ثنا الحسن بن علي بن عفان ، ثنا زيد بن الحباب عن حماد بن سلمة ، قال : حدثني ثمامة بن عبد الله بن أنس عن جده أنس بن مالك قال : كن إماء عمر - رضي الله عنه - يخدمننا كاشفات عن شعورهن ، تضرب ثديهن .
(سنن الکبری للبیہقی 3038, تفسیر یحیی بن سلام 739/2 و 441/11)۔
"" سیدنا انس رضی اللہ عنہ
کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی باندیاں ہماری خدمت کیا کرتی تھیں۔ ان کے
سر کے بالوں پر کپڑا نہ ہوتا تھا انکی چھاتیاں حرکت کرتی تھیں ""
قال الشيخ : والآثار عن
عمر بن الخطاب - رضي الله عنه - في ذلك صحيحة ، وإنها تدل على أن رأسها ورقبتها
وما يظهر منها في حال المهنة ليس بعورة ،
""سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے آثار اس بارے میں صحیح ہیں
اور دلالت کرتے ہیں کہ باندی کا سر، گردن اور کام کرتے ہوئے جو چیز ظاہر ہو جائے،
ستر نہیں ہے۔"
اس
روایت پر مندرجہ ذیل اعتراضات ہو سکتے ہیں؛
11۔ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم عورت کے برہنہ سینے کو دیکھ رہے ہیں۔ لہذا ان کے نزدیک ان کا ستر ناف سے گھٹنوں تک ہی تھا۔؟؟؟؟؟
11۔ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم عورت کے برہنہ سینے کو دیکھ رہے ہیں۔ لہذا ان کے نزدیک ان کا ستر ناف سے گھٹنوں تک ہی تھا۔؟؟؟؟؟
2۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی باندیاں دوسروں کی خدمت کیوں کرتی تھیں؟؟؟
3۔
ان باندیوں کو سر اور سینے پر کپڑا لینے کی اجازت کیوں نہ تھی؟؟؟
جواب :
اول
یہ کہ اس زمانے میں غلام وہ انسان تھے کہ جو جنگی قیدی بن کر آتے تھے،پھر دشمن کی
قوت توڑنے اور حوصلے پست کرنے کیلئے انہیں واپس نہ کیا جاتا تھا،بلکہ
غلام بنا لیا جاتا اور خدمت پر مامور کر دیا جاتا تھا۔ اب خدمت پر مامور آدمی کو کام کرنے کیلئے ایسے لباس کی ضرورت ہوتی ہے،جو اس کیلئے سہل ہو،مشقت کا باعث نہ ہو۔ اوڑھنی اوڑھ کر کام کرنے میں عورت کو کام کرنے میں جس مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے،اسے آج کی گھریلو خواتین بھی بخوبی سمجھ سکتی ہیں اور کوئی حقیقت پسند ذہن اس سے انکار نہیں کر سکتا،لہذا لونڈیوں کیلئے اسلام نے آسانی کرتے ہوئے اس مشقت کو ختم کر دیا۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خدمت کے وقت ان کی حالت کا تذکرہ کیا ہے،اس سے مراد یہ نہیں کہ وہ برہنہ صدر تھیں،نہ ہی اس کا کہیں ثبوت ملتا ہے۔بلکہ کام کرتے وقت کپڑوں میں سے ہی جسمانی اعضاء ہلتے نظر آتے تھے۔اگر وہ برہنہ صدر ہوتیں تو روایت کے الفاظ اس طرح ہوتے "کاشفات عن شعورھن وصدورھن"۔ کہ ان کے سروں اور سینوں پر کپڑا نہ ہوتا۔ لیکن صرف سر کے برہنہ پن کا ذکر ہوا،سینے کا نہیں۔ اگر کوئی کہے کہ "تضرب ثدیھن" کے الفاظ کا مطلب ہے کہ ان کی چھاتیاں آپس میں ٹکراتی تھیں، اور کپڑوں کی قید میں وہ ٹکرا نہیں سکتیں،تو عرض ہے کہ
اولاً، "ضرب" بمعنی حرکت کا استعمال عربوں میں معمول ہے اور قرآن میں بھی اس کی نظیر موجود ہے؛
وإذا ضربتم في الأرض فليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة (النساء 101)۔
کہ جب تم زمین میں چلو تو نماز قصر کرنے میں تم پر کوئی حرج نہیں۔
ثانیاً یہ کہ یہی روایت بیہقی کے حوالے سے علامہ سیوطی نے جامع الاحدیث 310133 میں نقل کی ہے،اس میں "یضطرب" کا لفظ ہے،جو حرکت کے معنی میں زیادہ واضح ہے، بلکہ امام بیہقیؒ نے اسی روایت کا متن اپنی دوسری تالیف معرفۃ السنن والآثار 146/3 میں ذکر کیا ہے، اس میں "تَضْطَرِبُ ثُدِيُّهُنَّ" کے الفاظ ہیں۔ بلکہ امام بیہقیؒ سے بہت پہلے امام یحیی بن سلام نے اپنی تفسیر 739/2 و 146/3 میں بھی "تَضْطَرِبُ ثُدِيُّهُنَّ" کے الفاظ نقل کیئے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ "تضرب" کا لفظ تصحیف ہے،اصل الفاظ "تَضْطَرِبُ ثُدِيُّهُنَّ" ہی ہیں۔ بعض علماء کرام کو "تَضْطَرِبُ ثُدِيُّهُنَّ" کے الفاظ کو غیر صحیح قرار دینے میں غلطی لگی ہے۔ امام یحیی بن سلامؒ نے اسے اپنے دو استادوں سے روایت کیا ہے؛ ایک نصر بن طریف ہے،جو کہ ضعیف ہے۔ دوسرے حماد بن سلمہ ہیں،جو کہ موثق ہیں۔ لہذا نصر بن طریف کی وجہ سے ان الفاظ کو غیر صحیح قرار دینا درست نہیں۔ تو مطلب صاف ہوا کہ اس سے مراد چھاتیوں کی حرکت کا ذکر ہے،جو کہ کپڑوں کی قید میں رہ کر بھی ممکن ہے۔ نیز امام بیہقیؒ کی اپنی وضاحت بھی اس پر دال ہے۔
اس کے تذکرہ کے اصل مقاصد یہی ہیں کہ؛
1۔ کام کے وقت لونڈی کیلئے اوڑھنی اوڑھنا ضروری نہیں۔
22۔ اگر کام کرتے وقت اعضائے جسمانی سے خود بخود بغیر نیت کے کچھ ظاہر ہو جائے، تو لونڈیاں اسے گناہ نہ سمجھیں، بلکہ اپنے رب کی رخصت شمار کریں۔ امام بیہقیؒ نے بھی یہی توجیہ بیان کی ہے۔
3۔ مسلمان اسے عیب نہ سمجھیں اور اس وجہ سے باندی کو کوئی سزا نہ دیں۔
4۔ اور نہ ہی کوئی بد باطن ان سے برائی کی طمع رکھے۔
55۔ باندیاں اپنے آقا کے حکم و اجازت سے دوسرے لوگوں کی خدمت بھی کر سکتی ہیں اور وہاں بھی پردے کی ایسی کیفیت بن سکتی ہے۔اس میں بھی کوئی گناہ نہیں۔
لہذا سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بنظرِ تفحش اسے بیان نہیں کیا،بلکہ بغرضِ ترخص بیان کیا ہے اور مراد اس سے مسئلہ کی وضاحت ہے، نہ کہ شہوانی تلذذ۔
دوم یہ کہ اگر آج کے ترقی یافتہ زمانہ کی آزاد عورتیں دوسروں کے گھروں میں کام کر سکتی ہیں تو پرانے زمانے کی لونڈیاں کیوں نہیں کر سکتی تھیں؟
سوم یہ کہ آزاد و غلام عورت کا دنیاوی فرق بھی مقصود تھا،جیسا کہ اوپر گزر چکا۔یہ اس وجہ سے نہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ انہیں انسانیت سے کم درجہ دیتے تھے،بلکہ دنیاوی لحاظ سے یہ فرقِ مراتب ضروری تھا۔
غلام بنا لیا جاتا اور خدمت پر مامور کر دیا جاتا تھا۔ اب خدمت پر مامور آدمی کو کام کرنے کیلئے ایسے لباس کی ضرورت ہوتی ہے،جو اس کیلئے سہل ہو،مشقت کا باعث نہ ہو۔ اوڑھنی اوڑھ کر کام کرنے میں عورت کو کام کرنے میں جس مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے،اسے آج کی گھریلو خواتین بھی بخوبی سمجھ سکتی ہیں اور کوئی حقیقت پسند ذہن اس سے انکار نہیں کر سکتا،لہذا لونڈیوں کیلئے اسلام نے آسانی کرتے ہوئے اس مشقت کو ختم کر دیا۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خدمت کے وقت ان کی حالت کا تذکرہ کیا ہے،اس سے مراد یہ نہیں کہ وہ برہنہ صدر تھیں،نہ ہی اس کا کہیں ثبوت ملتا ہے۔بلکہ کام کرتے وقت کپڑوں میں سے ہی جسمانی اعضاء ہلتے نظر آتے تھے۔اگر وہ برہنہ صدر ہوتیں تو روایت کے الفاظ اس طرح ہوتے "کاشفات عن شعورھن وصدورھن"۔ کہ ان کے سروں اور سینوں پر کپڑا نہ ہوتا۔ لیکن صرف سر کے برہنہ پن کا ذکر ہوا،سینے کا نہیں۔ اگر کوئی کہے کہ "تضرب ثدیھن" کے الفاظ کا مطلب ہے کہ ان کی چھاتیاں آپس میں ٹکراتی تھیں، اور کپڑوں کی قید میں وہ ٹکرا نہیں سکتیں،تو عرض ہے کہ
اولاً، "ضرب" بمعنی حرکت کا استعمال عربوں میں معمول ہے اور قرآن میں بھی اس کی نظیر موجود ہے؛
وإذا ضربتم في الأرض فليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة (النساء 101)۔
کہ جب تم زمین میں چلو تو نماز قصر کرنے میں تم پر کوئی حرج نہیں۔
ثانیاً یہ کہ یہی روایت بیہقی کے حوالے سے علامہ سیوطی نے جامع الاحدیث 310133 میں نقل کی ہے،اس میں "یضطرب" کا لفظ ہے،جو حرکت کے معنی میں زیادہ واضح ہے، بلکہ امام بیہقیؒ نے اسی روایت کا متن اپنی دوسری تالیف معرفۃ السنن والآثار 146/3 میں ذکر کیا ہے، اس میں "تَضْطَرِبُ ثُدِيُّهُنَّ" کے الفاظ ہیں۔ بلکہ امام بیہقیؒ سے بہت پہلے امام یحیی بن سلام نے اپنی تفسیر 739/2 و 146/3 میں بھی "تَضْطَرِبُ ثُدِيُّهُنَّ" کے الفاظ نقل کیئے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ "تضرب" کا لفظ تصحیف ہے،اصل الفاظ "تَضْطَرِبُ ثُدِيُّهُنَّ" ہی ہیں۔ بعض علماء کرام کو "تَضْطَرِبُ ثُدِيُّهُنَّ" کے الفاظ کو غیر صحیح قرار دینے میں غلطی لگی ہے۔ امام یحیی بن سلامؒ نے اسے اپنے دو استادوں سے روایت کیا ہے؛ ایک نصر بن طریف ہے،جو کہ ضعیف ہے۔ دوسرے حماد بن سلمہ ہیں،جو کہ موثق ہیں۔ لہذا نصر بن طریف کی وجہ سے ان الفاظ کو غیر صحیح قرار دینا درست نہیں۔ تو مطلب صاف ہوا کہ اس سے مراد چھاتیوں کی حرکت کا ذکر ہے،جو کہ کپڑوں کی قید میں رہ کر بھی ممکن ہے۔ نیز امام بیہقیؒ کی اپنی وضاحت بھی اس پر دال ہے۔
اس کے تذکرہ کے اصل مقاصد یہی ہیں کہ؛
1۔ کام کے وقت لونڈی کیلئے اوڑھنی اوڑھنا ضروری نہیں۔
22۔ اگر کام کرتے وقت اعضائے جسمانی سے خود بخود بغیر نیت کے کچھ ظاہر ہو جائے، تو لونڈیاں اسے گناہ نہ سمجھیں، بلکہ اپنے رب کی رخصت شمار کریں۔ امام بیہقیؒ نے بھی یہی توجیہ بیان کی ہے۔
3۔ مسلمان اسے عیب نہ سمجھیں اور اس وجہ سے باندی کو کوئی سزا نہ دیں۔
4۔ اور نہ ہی کوئی بد باطن ان سے برائی کی طمع رکھے۔
55۔ باندیاں اپنے آقا کے حکم و اجازت سے دوسرے لوگوں کی خدمت بھی کر سکتی ہیں اور وہاں بھی پردے کی ایسی کیفیت بن سکتی ہے۔اس میں بھی کوئی گناہ نہیں۔
لہذا سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بنظرِ تفحش اسے بیان نہیں کیا،بلکہ بغرضِ ترخص بیان کیا ہے اور مراد اس سے مسئلہ کی وضاحت ہے، نہ کہ شہوانی تلذذ۔
دوم یہ کہ اگر آج کے ترقی یافتہ زمانہ کی آزاد عورتیں دوسروں کے گھروں میں کام کر سکتی ہیں تو پرانے زمانے کی لونڈیاں کیوں نہیں کر سکتی تھیں؟
سوم یہ کہ آزاد و غلام عورت کا دنیاوی فرق بھی مقصود تھا،جیسا کہ اوپر گزر چکا۔یہ اس وجہ سے نہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ انہیں انسانیت سے کم درجہ دیتے تھے،بلکہ دنیاوی لحاظ سے یہ فرقِ مراتب ضروری تھا۔
_______
دوسری حدیث :
دوسری حدیث :
عَنْ نَافِعٍ , عَنِ
ابْنِ عُمَرَ , " أَنَّهُ كَانَ إِذَا اشْتَرَى جَارِيَةً كَشَفَ عَنْ
سَاقِهَا وَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهَا , وَعَلَى عَجُزِهَا "
وَكَأَنَّهُ كَانَ يَضَعُهَا عَلَيْهَا مِنْ وَرَاءِ الثَّوْبِ "
ترجمہ:۔ نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر جب بھی کنیز عورت خریدا کرتے تو وہ کنیز عورت کی ٹانگوں کا معائینہ کرتے، اپنے ہاتھ کنیز عورت کی چھاتی کے درمیان ہاتھ رکھتے اور کولہوں پر ہاتھ رکھتے۔
حوالہ:۔ سنن الکبری البیہقی
اس کی سند کو ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو "صحیح" قرار دیا ہے
(ارواء الغلیل فی التخریج الاحادیث، حدیث نمبر 17922)
ترجمہ:۔ نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر جب بھی کنیز عورت خریدا کرتے تو وہ کنیز عورت کی ٹانگوں کا معائینہ کرتے، اپنے ہاتھ کنیز عورت کی چھاتی کے درمیان ہاتھ رکھتے اور کولہوں پر ہاتھ رکھتے۔
حوالہ:۔ سنن الکبری البیہقی
اس کی سند کو ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو "صحیح" قرار دیا ہے
(ارواء الغلیل فی التخریج الاحادیث، حدیث نمبر 17922)
اس
روایت پر مندرجہ ذیل اعتراضات ہو سکتے ہیں؛
11۔ عورت کا بازاروں میں بکنا، انسانیت کی تذلیل ہے۔
11۔ عورت کا بازاروں میں بکنا، انسانیت کی تذلیل ہے۔
2۔
عورت کے جسم کو دیکھنا اور اس کے نسوانی اعضاء کو چھو کر چیک کرنا غیر اخلاقی حرکت
ہے۔
3۔
ہماری ماؤں بہنوں کے ساتھ کوئی ایسا کرے تو کیسا لگے گا؟
جواب :
اول
یہ کہ صرف عورتیں ہی نہیں، مرد غلام بھی بکتے تھے اور یہ مملوکہ اشیاء میں شمار
ہوتے تھے۔ اگر کوئی غلاموں کی خریدو فروخت پر معترض ہے تو یہ ایک الگ موضوع ہے،جس
کا تعلق غلامی اور انسانیت سے ہے،یعنی اخلاقی طور پر کیا یہ جائز ہے یا ناجائز۔ اس
کیلئے علیحدہ مضمون کی ضرورت ہے۔ فی الحال صرف اتنا کافی ہے کہ اگر غلامی انسانیت
سوز ظلم ہے تو زمانہ ماضی کے تمام انسان اس ظلم سے متصف اور انسانیت سے عاری رہے
ہیں اور ان میں فیثا غورث، گلیلیو وغیرہ سمیت وہ سب قدیم سائنسدان شامل ہیں،جن کی
پوجا آج کے ملحدین اپنی زبانِ حال سے کرتے نظر آ رہے ہیں۔ کیونکہ اس ظلم کے خلاف
ایک لفظ بھی ان سے ثابت نہیں۔ بلکہ وہ بے چارے تو یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کسی
زمانہ میں اسے "انسانیت سوز ظلم" کہا جائے گا۔ نیز یہ بات بھی غور طلب
ہے کہ آج کی کسی متفقہ، مسلمہ و مروجہ رسم کو زمانہ مستقبل کے لوگ ظلم و غیر
انسانی قرار دیں،تو کیا واقعی ظلم اور غیر انسانی شمار ہو گا؟
دوم یہ کہ جن کے اپنے اخلاقی ضابطے متعین نہیں،انہیں اسے غیر اخلاقی حرکت کہنے کا کوئی حق نہیں۔غلام عورت کے ساتھ جس سلوک پر دشمنانِ اسلام معترض نظر آتے ہیں،اس کے کہیں زیادہ قبیح اور وحشیانہ سلوک وہ آزاد عورتوں کے ساتھ خود کرتے ہیں یا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں مگر کوئی حرفِ اعتراض زبان پر نہین لاتے۔ نیز یہ دیکھنا، نکاح سے پہلے، ارادہ نکاح کے ساتھ عورت کو دیکھنے جیسا ہے۔ بغیر ارادہ تزویج، آدمی کا آزاد عورت کو دیکھنا حرام ہے۔ اسی طرح بغیر ارادہ خرید، آدمی کا باندی کو چھونا حرام ہے۔
جیسا کہ فقہائ نے وضاحت کی ہے؛
يجوز له النظر إلى ذلك من الأمة المستامة كما يجوز إلى من يريد خطبتها قياساً عليها بل الأمة المستامة أولى لأنها تراد للاستمتاع وغيره
جس لونڈی کو خریدنے کا ارادہ ہو، اس کے ان اعضاء (سر اور پنڈلیاں) دیکھنا جائز ہے، جیسا کہ ارادہ نکاح کے ساتھ منگیتر کو دیکھنا جائز ہے، قیاس بھی اسی پر ہے۔ بلکہ خریدی جانے والی لونڈی زیادہ اس کی مستحق ہے کیونکہ اسے خریدنے کا مقصد ہی استمتاع وغیرہ ہوتا ہے۔ (الشرح الکبیر 343/7، حاشیہ الروض الربع 233/6)۔
قال ابن حبيب: قد أجيز للعازم على الشراء ولم يفعله متلذذًا ولا عاتيًا ذلك،۔۔۔۔ وذلك إذا أعجبته وإلا لم يفعل.
ابن حبیب کہتے ہیں کہ لونڈی کو خریدنے کا عزم رکھنے والے کو اس کی اجازت ہے۔ اور حصولِ لذت کیلئے اور زیادہ جھنجھوڑ کر نہ کرے۔۔۔۔ اور تب کرے جب وہ اسے پسند آ جائے۔ اگر نہ آئے تو پھر اجازت نہیں۔ (الجامع لمسائل المدونۃ 808/13، النوادر والزیادات 21/5)۔
وَرَأْسٍ وَسَاقٍ مِنْ أَمَةٍ مُسْتَامَةٍ) أَيْ مُعَرَّضَةٍ لِلْبَيْعِ يُرِيدُ شِرَاءَهَا كَمَا لَوْ أَرَادَ خِطْبَتَهَا بَلْ الْمُسْتَامَةُ أَوْلَى، لِأَنَّهَا تُرَادُ لِلِاسْتِمْتَاعِ وَغَيْرِهِ نَقَلَ حَنْبَلٌ، لَا بَأْسَ أَنْ يُقَلِّبَهَا إذَا أَرَادَ الشِّرَاءَ مِنْ فَوْقِ الثِّيَابِ، لِأَنَّهَا لَا حُرْمَةَ لَهَا وَرَوَى أَبُو حَفْصَةَ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يَضَعُ يَدَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهَا وَعَلَى عَجُزِهَا مِنْ فَوْقِ الثِّيَابِ وَيَكْشِفُ عَنْ سَاقَيْهَا
اور جس لونڈی کو خریدنے کا ارادہ ہو، اس کے سر اور پنڈلی کو بھی دیکھنا جائز ہے۔ یعنی جو تجارت کیلئے پیش کی جا چکی ہو،(نہ کہ عام لونڈیاں)۔ جیسا کہ ارادہ نکاح کے ساتھ منگیتر کو دیکھنا جائز ہے، بلکہ خریدی جانے والی لونڈی زیادہ اس کی مستحق ہے کیونکہ اسے خریدنے کا مقصد ہی استمتاع وغیرہ ہوتا ہے۔ حنبلؒ نے نقل کیا ہے کہ ارادہ خرید کے ساتھ اسے آگے پیچھے سے کپڑوں میں رہ کر دیکھنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ یہ حرام نہیں ہے۔ اور ابو حفصہ کی روایت میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ اس کی پنڈلی سے کپڑا ہٹا لیتے۔اور اپنا ہاتھ اس کی چھاتیوں کے درمیان
اور کولہوں پر، کپڑے کے اوپر سے لگاتے تھے۔ (شرح منتہی الارادت 624/2 لعلامہ البہوتی)
َيَنْظُرُ مِنْ أَمَةٍ مُسْتَامَةٍ رَأْسًا وَسَاقًا، وَعَنْهُ: سِوَى عَوْرَةِ الصَّلَاةِ وَقِيلَ: كَمَخْطُوبَةٍ، نَقَلَ حَنْبَلٌ: لَا بَأْسَ أَنْ يُقَلِّبَهَا إذَا أَرَادَ الشِّرَاءَ، مِنْ فَوْقِ الثَّوْبِ؛ لِأَنَّهَا لَا حُرْمَةَ لها. قال القاضي: أجاز1 تَقْلِيبُ الصَّدْرِ وَالظَّهْرِ بِمَعْنَى لَمْسِهِ مِنْ فَوْقِ الثِّيَابِ
اور جس لونڈی کو خریدنے کا ارادہ ہو، اس کا سر اور پنڈلی دیکھنا جائز ہے۔ اور انہی (علامہ ابو بکر) سے مروی ہے کہ نماز کے ستر کے سوا سب دیکھنا جائز ہے۔ کہا گیا ہے کہ منگیتر کی طرح۔ حنبلؒ نے نقل کیا ہے کہ ارادہ خرید کے ساتھ اسے آگے پیچھے سے کپڑوں میں رہ کر دیکھنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ یہ حرام نہیں ہے۔ اور ابو حفصہ کی روایت میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ اس کی پنڈلی سے کپڑا ہٹا لیتے۔اور اپنا ہاتھ اس کی چھاتیوں کے درمیان
اور کولہوں پر، کپڑے کے اوپر سے لگاتے تھے۔ (شرح منتہی الارادت 624/2 لعلامہ البہوتی)
َيَنْظُرُ مِنْ أَمَةٍ مُسْتَامَةٍ رَأْسًا وَسَاقًا، وَعَنْهُ: سِوَى عَوْرَةِ الصَّلَاةِ وَقِيلَ: كَمَخْطُوبَةٍ، نَقَلَ حَنْبَلٌ: لَا بَأْسَ أَنْ يُقَلِّبَهَا إذَا أَرَادَ الشِّرَاءَ، مِنْ فَوْقِ الثَّوْبِ؛ لِأَنَّهَا لَا حُرْمَةَ لها. قال القاضي: أجاز1 تَقْلِيبُ الصَّدْرِ وَالظَّهْرِ بِمَعْنَى لَمْسِهِ مِنْ فَوْقِ الثِّيَابِ
اور جس لونڈی کو خریدنے کا ارادہ ہو، اس کا سر اور پنڈلی دیکھنا جائز ہے۔ اور انہی (علامہ ابو بکر) سے مروی ہے کہ نماز کے ستر کے سوا سب دیکھنا جائز ہے۔ کہا گیا ہے کہ منگیتر کی طرح۔ حنبلؒ نے نقل کیا ہے کہ ارادہ خرید کے ساتھ اسے آگے پیچھے سے کپڑوں میں رہ کر دیکھنے میں کوئی حرج نہیں،کیونکہ یہ حرام نہیں ہے۔ قاضی کہتے ہیں کہ کپڑوں کے اوپر سے سینے اور پشت کو چھونا جائز ہے۔ (الفروع لابن مفلح 182/8)۔
حدثنا بن مبارك عن الأوزاعي قال سمعت عطاء وسئل عن الجواري التي يبعن بمكة فكره النظر إليهن إلا لمن يريد أن يشتري
امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں کہ عطاء سے سوال کیا گیا،جواب میں نے بھی سنا، مکہ میں بکنے والی لونڈیوں کے بارے میں۔ تو انہوں نے ان کی طرف دیکھنا نا پسند کیا، سوائے اس کے جو خریدنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 20244)۔
تو پتہ چلا کہ یہاں ستر کا بیان مقصود نہیں ہے، بلکہ خاص حالات و کیفیات یعنی تجارت کے وقت لونڈی کے جسمانی اعضاء کو دیکھنے کا بیان ہے۔ اور خاص حالات کے حکم کو عام پر منطبق کرنا درست نہیں، جیسا کہ بیماری کی حالت میں ڈاکٹر کو جنسِ مخالف کے جسمانی اعضاء کو دیکھنے کی اجازت ہے، عام حالات میں نہیں۔ لہذا اس روایت سے ستر کا حکم کشید کرنا، محض تحکم ہے۔ رہی بات دیکھنے اور چھونے کے فرق کی، تو یہ اصل میں آزاد اور غلام عورت کا فرق ہے،جو کہ اس زمانے میں ہر قوم و مذہب میں رائج تھا، اور کسی کو اس پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ موجودہ زمانے میں اس پر اعتراض کرنا ایسے ہی ہے، جیسے زمانہ حال کا کوئی "دانشور"، زمانہ ماضی میں تلوار سے لڑنے پر اعتراض کرے۔
دوم یہ کہ جن کے اپنے اخلاقی ضابطے متعین نہیں،انہیں اسے غیر اخلاقی حرکت کہنے کا کوئی حق نہیں۔غلام عورت کے ساتھ جس سلوک پر دشمنانِ اسلام معترض نظر آتے ہیں،اس کے کہیں زیادہ قبیح اور وحشیانہ سلوک وہ آزاد عورتوں کے ساتھ خود کرتے ہیں یا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں مگر کوئی حرفِ اعتراض زبان پر نہین لاتے۔ نیز یہ دیکھنا، نکاح سے پہلے، ارادہ نکاح کے ساتھ عورت کو دیکھنے جیسا ہے۔ بغیر ارادہ تزویج، آدمی کا آزاد عورت کو دیکھنا حرام ہے۔ اسی طرح بغیر ارادہ خرید، آدمی کا باندی کو چھونا حرام ہے۔
جیسا کہ فقہائ نے وضاحت کی ہے؛
يجوز له النظر إلى ذلك من الأمة المستامة كما يجوز إلى من يريد خطبتها قياساً عليها بل الأمة المستامة أولى لأنها تراد للاستمتاع وغيره
جس لونڈی کو خریدنے کا ارادہ ہو، اس کے ان اعضاء (سر اور پنڈلیاں) دیکھنا جائز ہے، جیسا کہ ارادہ نکاح کے ساتھ منگیتر کو دیکھنا جائز ہے، قیاس بھی اسی پر ہے۔ بلکہ خریدی جانے والی لونڈی زیادہ اس کی مستحق ہے کیونکہ اسے خریدنے کا مقصد ہی استمتاع وغیرہ ہوتا ہے۔ (الشرح الکبیر 343/7، حاشیہ الروض الربع 233/6)۔
قال ابن حبيب: قد أجيز للعازم على الشراء ولم يفعله متلذذًا ولا عاتيًا ذلك،۔۔۔۔ وذلك إذا أعجبته وإلا لم يفعل.
ابن حبیب کہتے ہیں کہ لونڈی کو خریدنے کا عزم رکھنے والے کو اس کی اجازت ہے۔ اور حصولِ لذت کیلئے اور زیادہ جھنجھوڑ کر نہ کرے۔۔۔۔ اور تب کرے جب وہ اسے پسند آ جائے۔ اگر نہ آئے تو پھر اجازت نہیں۔ (الجامع لمسائل المدونۃ 808/13، النوادر والزیادات 21/5)۔
وَرَأْسٍ وَسَاقٍ مِنْ أَمَةٍ مُسْتَامَةٍ) أَيْ مُعَرَّضَةٍ لِلْبَيْعِ يُرِيدُ شِرَاءَهَا كَمَا لَوْ أَرَادَ خِطْبَتَهَا بَلْ الْمُسْتَامَةُ أَوْلَى، لِأَنَّهَا تُرَادُ لِلِاسْتِمْتَاعِ وَغَيْرِهِ نَقَلَ حَنْبَلٌ، لَا بَأْسَ أَنْ يُقَلِّبَهَا إذَا أَرَادَ الشِّرَاءَ مِنْ فَوْقِ الثِّيَابِ، لِأَنَّهَا لَا حُرْمَةَ لَهَا وَرَوَى أَبُو حَفْصَةَ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يَضَعُ يَدَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهَا وَعَلَى عَجُزِهَا مِنْ فَوْقِ الثِّيَابِ وَيَكْشِفُ عَنْ سَاقَيْهَا
اور جس لونڈی کو خریدنے کا ارادہ ہو، اس کے سر اور پنڈلی کو بھی دیکھنا جائز ہے۔ یعنی جو تجارت کیلئے پیش کی جا چکی ہو،(نہ کہ عام لونڈیاں)۔ جیسا کہ ارادہ نکاح کے ساتھ منگیتر کو دیکھنا جائز ہے، بلکہ خریدی جانے والی لونڈی زیادہ اس کی مستحق ہے کیونکہ اسے خریدنے کا مقصد ہی استمتاع وغیرہ ہوتا ہے۔ حنبلؒ نے نقل کیا ہے کہ ارادہ خرید کے ساتھ اسے آگے پیچھے سے کپڑوں میں رہ کر دیکھنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ یہ حرام نہیں ہے۔ اور ابو حفصہ کی روایت میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ اس کی پنڈلی سے کپڑا ہٹا لیتے۔اور اپنا ہاتھ اس کی چھاتیوں کے درمیان
اور کولہوں پر، کپڑے کے اوپر سے لگاتے تھے۔ (شرح منتہی الارادت 624/2 لعلامہ البہوتی)
َيَنْظُرُ مِنْ أَمَةٍ مُسْتَامَةٍ رَأْسًا وَسَاقًا، وَعَنْهُ: سِوَى عَوْرَةِ الصَّلَاةِ وَقِيلَ: كَمَخْطُوبَةٍ، نَقَلَ حَنْبَلٌ: لَا بَأْسَ أَنْ يُقَلِّبَهَا إذَا أَرَادَ الشِّرَاءَ، مِنْ فَوْقِ الثَّوْبِ؛ لِأَنَّهَا لَا حُرْمَةَ لها. قال القاضي: أجاز1 تَقْلِيبُ الصَّدْرِ وَالظَّهْرِ بِمَعْنَى لَمْسِهِ مِنْ فَوْقِ الثِّيَابِ
اور جس لونڈی کو خریدنے کا ارادہ ہو، اس کا سر اور پنڈلی دیکھنا جائز ہے۔ اور انہی (علامہ ابو بکر) سے مروی ہے کہ نماز کے ستر کے سوا سب دیکھنا جائز ہے۔ کہا گیا ہے کہ منگیتر کی طرح۔ حنبلؒ نے نقل کیا ہے کہ ارادہ خرید کے ساتھ اسے آگے پیچھے سے کپڑوں میں رہ کر دیکھنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ یہ حرام نہیں ہے۔ اور ابو حفصہ کی روایت میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ اس کی پنڈلی سے کپڑا ہٹا لیتے۔اور اپنا ہاتھ اس کی چھاتیوں کے درمیان
اور کولہوں پر، کپڑے کے اوپر سے لگاتے تھے۔ (شرح منتہی الارادت 624/2 لعلامہ البہوتی)
َيَنْظُرُ مِنْ أَمَةٍ مُسْتَامَةٍ رَأْسًا وَسَاقًا، وَعَنْهُ: سِوَى عَوْرَةِ الصَّلَاةِ وَقِيلَ: كَمَخْطُوبَةٍ، نَقَلَ حَنْبَلٌ: لَا بَأْسَ أَنْ يُقَلِّبَهَا إذَا أَرَادَ الشِّرَاءَ، مِنْ فَوْقِ الثَّوْبِ؛ لِأَنَّهَا لَا حُرْمَةَ لها. قال القاضي: أجاز1 تَقْلِيبُ الصَّدْرِ وَالظَّهْرِ بِمَعْنَى لَمْسِهِ مِنْ فَوْقِ الثِّيَابِ
اور جس لونڈی کو خریدنے کا ارادہ ہو، اس کا سر اور پنڈلی دیکھنا جائز ہے۔ اور انہی (علامہ ابو بکر) سے مروی ہے کہ نماز کے ستر کے سوا سب دیکھنا جائز ہے۔ کہا گیا ہے کہ منگیتر کی طرح۔ حنبلؒ نے نقل کیا ہے کہ ارادہ خرید کے ساتھ اسے آگے پیچھے سے کپڑوں میں رہ کر دیکھنے میں کوئی حرج نہیں،کیونکہ یہ حرام نہیں ہے۔ قاضی کہتے ہیں کہ کپڑوں کے اوپر سے سینے اور پشت کو چھونا جائز ہے۔ (الفروع لابن مفلح 182/8)۔
حدثنا بن مبارك عن الأوزاعي قال سمعت عطاء وسئل عن الجواري التي يبعن بمكة فكره النظر إليهن إلا لمن يريد أن يشتري
امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں کہ عطاء سے سوال کیا گیا،جواب میں نے بھی سنا، مکہ میں بکنے والی لونڈیوں کے بارے میں۔ تو انہوں نے ان کی طرف دیکھنا نا پسند کیا، سوائے اس کے جو خریدنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 20244)۔
تو پتہ چلا کہ یہاں ستر کا بیان مقصود نہیں ہے، بلکہ خاص حالات و کیفیات یعنی تجارت کے وقت لونڈی کے جسمانی اعضاء کو دیکھنے کا بیان ہے۔ اور خاص حالات کے حکم کو عام پر منطبق کرنا درست نہیں، جیسا کہ بیماری کی حالت میں ڈاکٹر کو جنسِ مخالف کے جسمانی اعضاء کو دیکھنے کی اجازت ہے، عام حالات میں نہیں۔ لہذا اس روایت سے ستر کا حکم کشید کرنا، محض تحکم ہے۔ رہی بات دیکھنے اور چھونے کے فرق کی، تو یہ اصل میں آزاد اور غلام عورت کا فرق ہے،جو کہ اس زمانے میں ہر قوم و مذہب میں رائج تھا، اور کسی کو اس پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ موجودہ زمانے میں اس پر اعتراض کرنا ایسے ہی ہے، جیسے زمانہ حال کا کوئی "دانشور"، زمانہ ماضی میں تلوار سے لڑنے پر اعتراض کرے۔
اسلام
نے شہوانی تلذذ کے حصول کیلئے دو جائز طریقے بتائے ہیں؛
اول نکاح
دوم لونڈی
اسلام نے نکاح سے پہلے عورت کو ایک بار دیکھ لینے کی اجازت دی ہے تا کہ اگر اس کے من کو بھائے تو اس سے شادی کر لے۔ یہ نہ ہو کہ بعد از تزویج اسے عورت پسند نہ آئے اور وہ اس کی اور اپنی زندگی خراب کر لے۔ اب من کو بھانے والی کون سی خصوصیات ہیں،یہ ہر انسان جانتا ہے،بلکہ ہر انسان کی ان میں اپنی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ لہذا ان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسلام نے اس حرام کو اس خاص مقصد کیلئے حلال کر دیا ہے۔
اسی طرح اسلام نے لونڈی خریدنے کیلئے بھی اس حرام یعنی لمس کو اس خاص مقصد کیلئے حلال کر دیا ہے۔ تا کہ اپنی ترجیحات کے مطابق وہ اسے اچھی طرح دیکھ پرکھ سکے۔ رہی یہ بات کہ اگر اچھی طرح دیکھ پرکھ کے بعد بھی لونڈی پسند نہ آئے تو؟ یو ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے آزاد عورت کو دیکھنے کے بعد اگر وہ پسند نہ آئے تو انکار کر سکتا ہے، یہی معاملہ لونڈی کے ساتھ بھی ہے۔
سوم؛ ہم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ اس کی ماں یا بہن یا کوئی بھی عزیز جیل میں جائے، مگر کیا مرد و خواتین کے جیل خانے ہیں کہ نہیں؟ ہم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ وہ بیمار ہو، مگر کیا ہسپتال موجود ہیں کہ نہیں؟ ہم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ جنگ ہو، مگر کیا پوری دنیا کے ممالک کی افواج ہیں یا نہیں؟ لہذا اس مسئلے کو پسند نا پسند کے ترازو میں تولنا ہی غلط ہے کہ یہ اس زمانے میں جنگ کے نا گزیر نتائج میں شمار ہوتا تھا۔ اسلام نے اس رواج کو دو طریقوں سے کم کیا۔ ایک غلاموں کی آزادی کی زبردست ترغیب اور دوسرے الگ سے باقاعدہ فوج کا قیام،جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔
اگر کوئی یہ کہے کہ اسلام میں تو آج بھی اس کی اجازت موجود ہے،تو عرض ہے کہ صرف اجازت ہی ہے،فرض نہیں۔ نیز آخر اس میں حرج ہی کیا ہے؟پھر آئندہ اگر ایسے حالات ہو جائیں کہ غلامی کا دور دوبارہ شروع ہو جائے،کہ یہ بعید از قیاس نہیں ہے،بلکہ آج کے "ترقی یافتہ" ہتھیاروں کی بدولت صرف چند لمحات میں اس انتہائی ترقی یافتہ زمانے کو پتھر کے زمانے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، تو اسلامی تعلیمات پھر غلاموں کیلئے مینارہ نور ثابت ہو سکتی ہیں۔ پھر ملحدین کو یا فحاشی و عریانیت کو ترقی کا نام دے کر پوری دنیا میں پھیلا دینے والوں کو اس سے کیوں تکلیف ہے؟ اگر کوئی کہے کہ یہ
انسانیت سوز ظلم ہے۔ تو بتایئے کہ ایک سے زیادہ سیکس پارٹنرز رکھنے والے اور ہم جنس پرستی کو جائز قرار دینے والے کونسا انسانیت کو جلا بخش رہے ہیں، یہی تو اصل حیوانیت ہے۔ اگر کوئی کہے کہ اس سے لونڈیاں بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہو جاتی ہیں،تو ہم کہتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے۔ جتنی آزادی مغربی تہذیب نے آج کی "ترقی یافتہ" عورت کو دی ہے، اسلام نے کم و بیش اتنی ہی آزادی اپنی زیرِ کفالت لونڈیوں کو دی ہے۔
لونڈیوں کو اسلام نے پردے کی پابندی سے مستثنی قرار دیا ہے۔ (الاحزاب 59، بخاری 3976)۔
انہیں بازار میں بغیر سر یا منہ ڈھانکے چلنے پھرنے کی اجازت ہے۔ (سنن الکبری للبیہقی 3037)۔
فتنہ کی عدم موجودگی میں مردوں کے ساتھ ان کا اختلاط جائز ہے۔ (سنن الکبری للبیہقی 3038)۔
گھر سے باہر نکل کر کام کاج کرنے اور پیسہ کمانے کی اجازت ہے۔ (بخاری 2421)۔
تو اسلام کی باندی اور آج کی ترقی یافتہ مغربی عورت آزادی میں ایک برابر ہیں،سوائے جنسی آزادی کے، کہ مسلمہ باندی صرف اپنے آقا یا شوہر سے ہی جنسی تعلق رکھ سکتی تھی،مگر آج کی ترقی یافتہ مغربی عورت کو گنتی زیادہ آتی ہے۔
آخر میں عرض ہے کہ غلامی ابھی بھی معدوم نہیں ہوئی،صرف اس کی صورت بدل گئی ہے۔ پہلے فرداً فرداً غلام ہوا کرتے تھے،اب پوری پوری قوم غلام ہوتی ہے۔ پہلے غلاموں کی قیمت عام خریدار لگاتے تھے، اب قوموں کی قیمت آئی ایم ایف لگاتا ہے۔ پہلے بازاروں میں سرِ عام غلاموں کی بولیاں لگتی تھیں،اب بین الاقوامی اداروں میں بیٹھ کر قوموں کی بولیاں لگتی ہیں۔ پہلے آقا جو حکم دیتے، غلام کو ماننا پڑتا تھا، اب سپر پاورز کرائے کے حکمرانوں کو جو حکم دیں، انہیں ماننا پڑتا ہے۔ پہلے نہ ماننے پر کوڑے برستے تھے، اب نہ ماننے پر ڈرون اور کلسٹر بم برستے ہیں۔ پہلے غلام اور آزاد میں فرق روا رکھا جاتا تھا،اب یہ فرق ترقی پذیر اقوام اور ترقی یافتہ اقوام میں تبدیل ہو گیا ہے۔ پہلے غلاموں کی محنت پسینے کی کمائی اس کا آقا لے جاتا تھا، اب عوام کے خون پسینے کی کمائی ٹیکسوں کے ذریعے نچوڑ کر یا تو حکمرانوں کے اللے تللے پورے کیئے جاتے ہیں، یا پھر آئی ایم ایف کا سدا بہار بھوکا پیٹ بھرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب پہلے دور کی غلامی آج کے دور سے اس لحاظ سے کچھ بہتر ہی تھی کہ غلام کو پتہ ہوتا تھا کہ وہ غلام ہی ہے، جبکہ آج کے دور کے غلام اس خوش فہمی مبتلا ہیں کہ وہ آزاد ہیں۔ پہلے وہ اپنی آزادی کی قیمت خود ادا کر کے آزاد ہو سکتے تھے،مگر اب قوموں کو ایسے قرضوں میں
جکڑا جاتا ہے کہ جن سے باہر نکلنے کا کوئی رستہ دکھائی نہیں دیتا۔ پہلے صرف جسم غلام ہوا کرتے تھے، اب تو سوچ وفکر بھی غلام ہے۔ پہلے غلام آزادی کے خواب دیکھا کرتے تھے جبکہ موجودہ ذہنی غلاموں کی فکری پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ اپنے آقاؤں کی مسلط کردہ تہذیب کو ہی اپنی آزادی شمار کرتے ہیں۔ تو کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ اب غلامی موجود نہیں،بلکہ پہلے سے زیادہ ترقی یافتہ شکل میں موجود ہے۔
اول نکاح
دوم لونڈی
اسلام نے نکاح سے پہلے عورت کو ایک بار دیکھ لینے کی اجازت دی ہے تا کہ اگر اس کے من کو بھائے تو اس سے شادی کر لے۔ یہ نہ ہو کہ بعد از تزویج اسے عورت پسند نہ آئے اور وہ اس کی اور اپنی زندگی خراب کر لے۔ اب من کو بھانے والی کون سی خصوصیات ہیں،یہ ہر انسان جانتا ہے،بلکہ ہر انسان کی ان میں اپنی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ لہذا ان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسلام نے اس حرام کو اس خاص مقصد کیلئے حلال کر دیا ہے۔
اسی طرح اسلام نے لونڈی خریدنے کیلئے بھی اس حرام یعنی لمس کو اس خاص مقصد کیلئے حلال کر دیا ہے۔ تا کہ اپنی ترجیحات کے مطابق وہ اسے اچھی طرح دیکھ پرکھ سکے۔ رہی یہ بات کہ اگر اچھی طرح دیکھ پرکھ کے بعد بھی لونڈی پسند نہ آئے تو؟ یو ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے آزاد عورت کو دیکھنے کے بعد اگر وہ پسند نہ آئے تو انکار کر سکتا ہے، یہی معاملہ لونڈی کے ساتھ بھی ہے۔
سوم؛ ہم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ اس کی ماں یا بہن یا کوئی بھی عزیز جیل میں جائے، مگر کیا مرد و خواتین کے جیل خانے ہیں کہ نہیں؟ ہم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ وہ بیمار ہو، مگر کیا ہسپتال موجود ہیں کہ نہیں؟ ہم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ جنگ ہو، مگر کیا پوری دنیا کے ممالک کی افواج ہیں یا نہیں؟ لہذا اس مسئلے کو پسند نا پسند کے ترازو میں تولنا ہی غلط ہے کہ یہ اس زمانے میں جنگ کے نا گزیر نتائج میں شمار ہوتا تھا۔ اسلام نے اس رواج کو دو طریقوں سے کم کیا۔ ایک غلاموں کی آزادی کی زبردست ترغیب اور دوسرے الگ سے باقاعدہ فوج کا قیام،جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔
اگر کوئی یہ کہے کہ اسلام میں تو آج بھی اس کی اجازت موجود ہے،تو عرض ہے کہ صرف اجازت ہی ہے،فرض نہیں۔ نیز آخر اس میں حرج ہی کیا ہے؟پھر آئندہ اگر ایسے حالات ہو جائیں کہ غلامی کا دور دوبارہ شروع ہو جائے،کہ یہ بعید از قیاس نہیں ہے،بلکہ آج کے "ترقی یافتہ" ہتھیاروں کی بدولت صرف چند لمحات میں اس انتہائی ترقی یافتہ زمانے کو پتھر کے زمانے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، تو اسلامی تعلیمات پھر غلاموں کیلئے مینارہ نور ثابت ہو سکتی ہیں۔ پھر ملحدین کو یا فحاشی و عریانیت کو ترقی کا نام دے کر پوری دنیا میں پھیلا دینے والوں کو اس سے کیوں تکلیف ہے؟ اگر کوئی کہے کہ یہ
انسانیت سوز ظلم ہے۔ تو بتایئے کہ ایک سے زیادہ سیکس پارٹنرز رکھنے والے اور ہم جنس پرستی کو جائز قرار دینے والے کونسا انسانیت کو جلا بخش رہے ہیں، یہی تو اصل حیوانیت ہے۔ اگر کوئی کہے کہ اس سے لونڈیاں بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہو جاتی ہیں،تو ہم کہتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے۔ جتنی آزادی مغربی تہذیب نے آج کی "ترقی یافتہ" عورت کو دی ہے، اسلام نے کم و بیش اتنی ہی آزادی اپنی زیرِ کفالت لونڈیوں کو دی ہے۔
لونڈیوں کو اسلام نے پردے کی پابندی سے مستثنی قرار دیا ہے۔ (الاحزاب 59، بخاری 3976)۔
انہیں بازار میں بغیر سر یا منہ ڈھانکے چلنے پھرنے کی اجازت ہے۔ (سنن الکبری للبیہقی 3037)۔
فتنہ کی عدم موجودگی میں مردوں کے ساتھ ان کا اختلاط جائز ہے۔ (سنن الکبری للبیہقی 3038)۔
گھر سے باہر نکل کر کام کاج کرنے اور پیسہ کمانے کی اجازت ہے۔ (بخاری 2421)۔
تو اسلام کی باندی اور آج کی ترقی یافتہ مغربی عورت آزادی میں ایک برابر ہیں،سوائے جنسی آزادی کے، کہ مسلمہ باندی صرف اپنے آقا یا شوہر سے ہی جنسی تعلق رکھ سکتی تھی،مگر آج کی ترقی یافتہ مغربی عورت کو گنتی زیادہ آتی ہے۔
آخر میں عرض ہے کہ غلامی ابھی بھی معدوم نہیں ہوئی،صرف اس کی صورت بدل گئی ہے۔ پہلے فرداً فرداً غلام ہوا کرتے تھے،اب پوری پوری قوم غلام ہوتی ہے۔ پہلے غلاموں کی قیمت عام خریدار لگاتے تھے، اب قوموں کی قیمت آئی ایم ایف لگاتا ہے۔ پہلے بازاروں میں سرِ عام غلاموں کی بولیاں لگتی تھیں،اب بین الاقوامی اداروں میں بیٹھ کر قوموں کی بولیاں لگتی ہیں۔ پہلے آقا جو حکم دیتے، غلام کو ماننا پڑتا تھا، اب سپر پاورز کرائے کے حکمرانوں کو جو حکم دیں، انہیں ماننا پڑتا ہے۔ پہلے نہ ماننے پر کوڑے برستے تھے، اب نہ ماننے پر ڈرون اور کلسٹر بم برستے ہیں۔ پہلے غلام اور آزاد میں فرق روا رکھا جاتا تھا،اب یہ فرق ترقی پذیر اقوام اور ترقی یافتہ اقوام میں تبدیل ہو گیا ہے۔ پہلے غلاموں کی محنت پسینے کی کمائی اس کا آقا لے جاتا تھا، اب عوام کے خون پسینے کی کمائی ٹیکسوں کے ذریعے نچوڑ کر یا تو حکمرانوں کے اللے تللے پورے کیئے جاتے ہیں، یا پھر آئی ایم ایف کا سدا بہار بھوکا پیٹ بھرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب پہلے دور کی غلامی آج کے دور سے اس لحاظ سے کچھ بہتر ہی تھی کہ غلام کو پتہ ہوتا تھا کہ وہ غلام ہی ہے، جبکہ آج کے دور کے غلام اس خوش فہمی مبتلا ہیں کہ وہ آزاد ہیں۔ پہلے وہ اپنی آزادی کی قیمت خود ادا کر کے آزاد ہو سکتے تھے،مگر اب قوموں کو ایسے قرضوں میں
جکڑا جاتا ہے کہ جن سے باہر نکلنے کا کوئی رستہ دکھائی نہیں دیتا۔ پہلے صرف جسم غلام ہوا کرتے تھے، اب تو سوچ وفکر بھی غلام ہے۔ پہلے غلام آزادی کے خواب دیکھا کرتے تھے جبکہ موجودہ ذہنی غلاموں کی فکری پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ اپنے آقاؤں کی مسلط کردہ تہذیب کو ہی اپنی آزادی شمار کرتے ہیں۔ تو کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ اب غلامی موجود نہیں،بلکہ پہلے سے زیادہ ترقی یافتہ شکل میں موجود ہے۔
یہاں
پر ایک نظر ان روایات پر بھی ڈالنا فائدے سے خالی نہ ہو گا کہ جن میں ذکر ہے کہ
سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ عنہما
1۔ لونڈی کے پیٹ کو دیکھتے تھے۔ (مصنف عبد الرزاق 13198 و 13200 و 132011، پہلی روایت میں امام عبد الرزاق اور ابن جریج مدلس راوی ہیں۔ دیکھئے طبقات المدلسین لابن حجر 41/1 و 34/1، اور عن سے روایت کر رہے ہیں۔ دوسری اور تیسری میں بھی امام عبد الرزاق کا عنعنہ شامل ہے)۔
22۔ دوسرے لوگوں کی تجارت میں جا کر لونڈی کو دیکھتے تھے، یا اس کے سینے پر ہلکی ضرب لگاتے تھے، یا جھنجھوڑتے تھے۔ (مصنف عبد الرزاق 13199 و 13202 و 13203 و 13204، پہلی روایت میں ابن جریج کے استاد کا تعین نہیں ہے۔ یا عمرو ہے یا پھر ابو الزبیر ہے۔ اگر مؤخر الذکر ہے تو وہ بھی مدلس ہے۔ دیکھئے طبقات المدلسین لابن حجر 45/1 اور روایت معنعن ہے۔ بہرحال راوی کے تعین کے بغیر روایت کی صحت و ضعف کا فیصلہ مشکل ہے۔ دوسری میں امام عبد الرزاق مدلس عن سے روایت کر رہے ہیں۔ نیز یہ روایت ابن ابی نجیح سے بھی مروی ہے اور وہ بھی مدلس ہیں،دیکھئے
طبقات المدلسین لابن حجر 39/11، اور روایت معنعن ہے۔ تیسری اور چوتھی روایت میں امام عبد الرزاق اور سفیان بن عیینہ دونوں مدلس ہیں، دیکھئے طبقات المدلسین لابن حجر 32/1 اور روایت معنعن ہے۔ چوتھی روایت ابن ابی نجیح کے طریق سے بھی مروی ہے)۔
3۔ لونڈی کی پشت اور پیٹ سے کپڑا اٹھاتے تھے۔ (مصنف عبد الرزاق 132055، اس میں بھی عبد الرزاقؒ اور ابن جریجؒ مدلس ہیں اور روایت معنعن ہے)۔
تو ان میں سے کوئی بھی ضعف سے خالی نہیں۔ بلکہ
44۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی منسوب ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اس کی پنڈلیاں، پیٹ اور کولہے دیکھنے کی اجازت دی۔ (مصنف عبد الرزاق 13208) اس میں بھی عبد الرزاقؒ مدلس ہیں اور روایت معنعن ہے، نیز ابن جریجؒ سے اوپر دو راوی مجہول ہیں۔
55۔ امام سعید بن المسیبؒ اور امام اوزاعیؒ سے منسوب ہے کہ انہوں نے شرمگاہ کے علاوہ باقی سارا جسم دیکھنے کی اجازت دی ہے۔ (مصنف عبد الرزاق 13206 و 13207)۔ پہلی روایت میں پھر امام عبد الرزاق اور ابن جریج عنعنہ کے ساتھ موجود ہیں، نیز ایک راوی مجہول ہے۔ دوسری روایت میں امام عبد الرزاق اور سفیان ثوری عنعنہ سے روایت کر رہے ہیں۔ سفیان ثوریؒ بھی مشہور مدلس ہیں۔ (طبقات المدلسین لابن حجر 32/1)۔ نیز جابر بن یزید الجعفی بھی ہے جو کہ مدلس ہونے کے ساتھ ساتھ ضعیف عند الجمہور بھی ہے۔ (طبقات المدلسین لابن حجر 53/1)۔
1۔ لونڈی کے پیٹ کو دیکھتے تھے۔ (مصنف عبد الرزاق 13198 و 13200 و 132011، پہلی روایت میں امام عبد الرزاق اور ابن جریج مدلس راوی ہیں۔ دیکھئے طبقات المدلسین لابن حجر 41/1 و 34/1، اور عن سے روایت کر رہے ہیں۔ دوسری اور تیسری میں بھی امام عبد الرزاق کا عنعنہ شامل ہے)۔
22۔ دوسرے لوگوں کی تجارت میں جا کر لونڈی کو دیکھتے تھے، یا اس کے سینے پر ہلکی ضرب لگاتے تھے، یا جھنجھوڑتے تھے۔ (مصنف عبد الرزاق 13199 و 13202 و 13203 و 13204، پہلی روایت میں ابن جریج کے استاد کا تعین نہیں ہے۔ یا عمرو ہے یا پھر ابو الزبیر ہے۔ اگر مؤخر الذکر ہے تو وہ بھی مدلس ہے۔ دیکھئے طبقات المدلسین لابن حجر 45/1 اور روایت معنعن ہے۔ بہرحال راوی کے تعین کے بغیر روایت کی صحت و ضعف کا فیصلہ مشکل ہے۔ دوسری میں امام عبد الرزاق مدلس عن سے روایت کر رہے ہیں۔ نیز یہ روایت ابن ابی نجیح سے بھی مروی ہے اور وہ بھی مدلس ہیں،دیکھئے
طبقات المدلسین لابن حجر 39/11، اور روایت معنعن ہے۔ تیسری اور چوتھی روایت میں امام عبد الرزاق اور سفیان بن عیینہ دونوں مدلس ہیں، دیکھئے طبقات المدلسین لابن حجر 32/1 اور روایت معنعن ہے۔ چوتھی روایت ابن ابی نجیح کے طریق سے بھی مروی ہے)۔
3۔ لونڈی کی پشت اور پیٹ سے کپڑا اٹھاتے تھے۔ (مصنف عبد الرزاق 132055، اس میں بھی عبد الرزاقؒ اور ابن جریجؒ مدلس ہیں اور روایت معنعن ہے)۔
تو ان میں سے کوئی بھی ضعف سے خالی نہیں۔ بلکہ
44۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی منسوب ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اس کی پنڈلیاں، پیٹ اور کولہے دیکھنے کی اجازت دی۔ (مصنف عبد الرزاق 13208) اس میں بھی عبد الرزاقؒ مدلس ہیں اور روایت معنعن ہے، نیز ابن جریجؒ سے اوپر دو راوی مجہول ہیں۔
55۔ امام سعید بن المسیبؒ اور امام اوزاعیؒ سے منسوب ہے کہ انہوں نے شرمگاہ کے علاوہ باقی سارا جسم دیکھنے کی اجازت دی ہے۔ (مصنف عبد الرزاق 13206 و 13207)۔ پہلی روایت میں پھر امام عبد الرزاق اور ابن جریج عنعنہ کے ساتھ موجود ہیں، نیز ایک راوی مجہول ہے۔ دوسری روایت میں امام عبد الرزاق اور سفیان ثوری عنعنہ سے روایت کر رہے ہیں۔ سفیان ثوریؒ بھی مشہور مدلس ہیں۔ (طبقات المدلسین لابن حجر 32/1)۔ نیز جابر بن یزید الجعفی بھی ہے جو کہ مدلس ہونے کے ساتھ ساتھ ضعیف عند الجمہور بھی ہے۔ (طبقات المدلسین لابن حجر 53/1)۔
------------------------
قصہ مختصر اول اسلام میں پردہ اس قدر سخت نہیں تھا جتنا آج کل ہے اور دوسری بات پے پردگی سے فحاشی نہیں پھیلتی،
ReplyDelete