Wednesday, February 22, 2017

کتوں کو جان سے مار دینے والی احادیث کی حقیقت

کتوں کو جان سے مار دینے والی احادیث کی حقیقت
-_-__----__---___---___----___----___----___----__---__---__-
بہت سیدھی سی بات کا بہت غلط مطلب نکال لینا بہت سے لوگوں کے لیے بہت آسان ہوتا ہے۔ ان کو بہت آسان لفظوں میں ہم ملحد بھی کہہ سکتے ہیں۔
حال ہی میں ایک پوسٹ پر ملحدوں کے ایک بڑے "پیشوا" کو کتوں کے قتل سے متعلق احادیث بیان کرکے ملحدوں کی داد سمیٹتے اور مجھ جیسے کم علم مسلمانوں کو جواب میں آئیں بائیں کرتے دیکھا تو احساس ہوا کہ ان احادیث کی اصل کو عام کرنا کتنا ضروری ہے۔
اس ضمن میں بیان کی جانے والی احادیث دراصل ہیں کس طرح، آیئے جانتے ہیں۔
حدیث شریف میں ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک بار حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خاص وقت پر آنے کا وعدہ کیا تھا، مگر وہ مقرّرہ وقت پر نہیں آئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے پریشانی ہوئی کہ جبرائیل امین تو وعدہ خلافی نہیں کرسکتے، ان کے نہ آنے کی کیا وجہ ہوئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ آپ کی چارپائی کے نیچے کتے کا ایک بچہ بیٹھا تھا، اس کو اُٹھوایا گیا، اس جگہ کو صاف کرکے وہاں چھڑکاوٴ کیا گیا، اس کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرّرہ وقت پر نہ آنے کی شکایت کی، حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کی چارپائی کے نیچے کتا بیٹھا تھا اور ہم اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو۔ (مشکوٰة باب التصاویر ص:۳۸۵ و مسلم)
اس حدیث کے بیان ہونے سے قبل عرب معاشرے میں کتوں کو بہت شوق سے پالا جاتا تھا۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے اس کی ضد کی اور مذکورہ حدیث کی روشنی میں گویا گھر کے اندر کتا رکھنے کی ممانعت فرمائی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اسلام کا یہ فیصلہ درست تھا یا کہ غلط؟
سب سے پہلی بات یاد رکھنے کی یہی ہے کہ اس دور میں کتے کے کاٹنے کے انجکشن ہرگز موجود نہیں تھے۔ گویا اگر کسیکو کتا کاٹ لیتاتو اس کی موت تک واقع ہوسکتی تھی۔
یہ بات بھی ہمیں اب جاکر پتا چلی ہے کہ کتے کے لعاب میں زہریلے مادے ہوتے ہیں، لیکن اسلام نے تبھی کتے کے جھوٹے برتن کو بھی ناپاک قرار دے دیا تھا۔ اور اسے پاک کرنے کا طریقہ پہلی بار مٹی کے ساتھ سات بار پانی سے دھونا بتایا۔ حالانکہ نجس برتن تو تین دفعہ دھونے سے شرعاً پاک ہوجاتا ہے۔ غور فرما لیں کتے کے جھوٹے برتن کی پاکی کے لیے چار اضافی دھلائیاں چہ معنی دارد؟ باقی کتا نجس العین نہیں۔ اگر اس کا جسم خشک ہو اور کپڑوں کو لگ جائے تو کپڑے ناپاک نہیں ہوں گے۔ لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فرشتوں پر یقین کریں نہ کریں، لیکن کتے، سانپ، بچھو، چھکلی جیسے زہریلے اور جھپٹنے والی چیل جیسی ضرر رساں مخلوق کو گھر میں رکھنا اس طور بھی خطرے سے خالی نہیں۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث میں بھی ذکر ہے:
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ بنت الصدیق رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ حضور نبی مہتشم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
خَمْسٌ فَوَاسِقُ يُقْتَلْنَ فِى الْحَرَمِ الْفَأْرَةُ ، وَالْعَقْرَبُ ، وَالْحُدَيَّا ، وَالْغُرَابُ ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ
یعنی:
 پانچ (جانور) فاسق ہیں، انہیں حرم میں بھی قتل کیا جا سکتا ہے، چوہا، بچھو، چیل، کوا، اور درندگی کرنے والا خونخوار کتا۔ (صحیح البخاری/حدیث /3314کتاب بدء الخلق/باب16)
اسی طرح ایک اور حدیث پاک میں بھی آتا ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مہتشم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 خَمْسٌ مِنَ الدَّوَابِّ مَنْ قَتَلَهُنَّ وَهْوَ مُحْرِمٌ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ الْعَقْرَبُ ، وَالْفَأْرَةُ ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ ، وَالْغُرَابُ ، وَالْحِدَأَةُ
یعنی:
جانوروں میں سے پانچ  ایسے ہیں جنہیں اگر کوئی احرام کی حالت میں بھی قتل کر دے تو اُس پر کوئی گناہ نہیں، بچھو، اور چوہا، اور درندگی کرنے والا خونخوار کتا، اور کوّا، اور چیل۔ (صحیح البخاری/حدیث /3315کتاب بدء الخلق/باب16)
متذکرہ بالا دونوں ہی احادیث میں آپ نے ملاحظہ فرمایا دراصل کن کتوں کو مارنے کا حکم دیا گیا؟ جو خونخوار اور ضرر رساں ہوں۔ کیونکہ بہرحال عقل کا بھی یہی تقاضا ہے کہ انسانی جان ایک خونخوار کتے سے بڑھ کر ہے۔ مگر ملحدوں کے پیشوا نے صرف وہی احادیث نقل کی تھیں جن میں اس حکم کا اجمالی ذکر ہے۔ جیسا کہ عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ ہی کی ایک اور روایت کو لے لیں۔ عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَمَرَ بِقَتْلِ الْكِلاَبِ
یعنی:
 ُآپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کتوں کو قتل کرنے کا حکم فرمایا۔ (صحیح البخاری/حدیث /3323کتاب بدء الخلق/باب17)
اب ہم میں سے کوئی ایک بھی انصاف پسند یہ بات مان سکتا ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا، سب کے سب کتوں کے لیے تھا؟ جبکہ ابھی عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ ہی کی تفصیلی روایت اوپر بیان کی گئی۔ صاف ظاہر ہے کہ جہاں بھی صرف کتے مارنے کے حکم کا ذکر ہے، وہاں یہ بات understood ہے کہ مراد خونخوار کتوں کو ہی مارنا ہے، جس کا ثبوت بھی احادیث مبارکہ سے ہی پیش خدمت ہے۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں:
أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِقَتْلِ الْكِلاَبِ حَتَّى إِنَّ الْمَرْأَةَ تَقْدَمُ مِنَ الْبَادِيَةِ بِكَلْبِهَا فَنَقْتُلُهُ ثُمَّ نَهَى النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- عَنْ قَتْلِهَا وَقَالَ، عَلَيْكُمْ بِالأَسْوَدِ الْبَهِيمِ ذِى النُّقْطَتَيْنِ فَإِنَّهُ شَيْطَانٌ
یعنی:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  نے ہمیں حکم دِیا کہ کتوں کو قتل کردِیا جائے، یہاں تک کہ مضافات کی طرف سے کوئی عورت اپنے کتے کے ساتھ آئی تو ہم اُس کتے کو بھی قتل کر آئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو قتل کرنے سے منع فرما دیا اور ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اُس خونخوار کالے کتے کو قتل کرو جس (کے چہرے) پر دو نقطے ہوتے ہیں، کیونکہ وہ شیطان ہوتا ہے۔ (صحیح مُسلم/حدیث/4101/کتاب المساقاۃ / باب10)
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی ہی ایک اور روایت ملاحظہ ہو:
أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِقَتْلِ الْكِلاَبِ فَأَرْسَلَ فِى أَقْطَارِ الْمَدِينَةِ أَنْ تُقْتَلَ
یعنی:
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا اور مدینہ کی بیرونی حدود تک لوگوں کو بھیجا کہ کتوں کو قتل کیا جائے. (صحیح مُسلم شریف /حدیث/4100کتاب المساقاۃ/باب 10)
ایک روایت جو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہی سے ہے، اس میں یہ الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دے کر مدینہ کے اطراف بھیجا تو ہم نے وہاں اونٹنی کے ساتھ بندھا ہوا کتا بھی نہ چھوڑا۔ الخ۔ (حوالہ یاد نہیں)
تو آپ نے ملاحظہ کیا، جب صورتحال یہ سامنے آنا شروع ہوئی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان خونخوار کتوں کو بھی مارنا شروع کر دیا جو اپنی یا کھیتوں وغیرہ کی حفاظت کے لیے رکھے جاتے تھے، (جو ظاہر ہے ڈھیلے ڈھالے اور مریل تو ہوتے نہیں۔ ہر نئے شخص پر غراتے اور جھپٹ پڑتے ہیں۔ یقیناً صحابہ کو یہ بھی ضرر رسان ہی معلوم ہوئے ہوں گے تو آپ رضوان اللہ علیہم نے ان کے شر سے انسانوں کو محفوظ بنانے کے لیے یہ اقدام کیا۔ لیکن حفاظت کے لیے رکھے جانے والے کتے کیونکہ اپنی جگہوں تک ہی محدود رہتے ہیں اور ان کا ہونا ضروری بھی تھا) تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ناصرف تین ضرورتوں یعنی شکار، کھیتوں اور جانوروں کی حفاظت کے لیے، حفاظت لائق کتے رکھنے کو اس حکم سے استثناء حاصل ہونے کی وضاحت فرمائی، بلکہ بے ضرر کتوں کو مارنے سے بھی ہمیشہ کی طرح منع فرمایا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث میں ہے:
حضرت عبد اللہ ابن المغفل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِقَتْلِ الْكِلاَبِ ثُمَّ قَالَ« مَا بَالُهُمْ وَبَالُ الْكِلاَبِ »ثُمَّ رَخَّصَ فِى كَلْبِ الصَّيْدِ وَكَلْبِ الْغَنَمِ
یعنی:
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو قتل کرنے کا حکم فرمایا۔ اور (ممانعت کا سبب بیان فرماتے ہوئے) ارشاد فرمایا اِن (لوگوں) کا کوئی معاملہ کتوں کو قتل کرنے کی ضرورت والا نہیں تھا۔ پھر شکار( کے لیے رکھے جانے) والے کتے، اور بکریوں (کی چوکیداری کرنے) والے کتے کے بارے میں رخصت عطاء فرما دی۔ (صحیح مُسلم/حدیث/4104 کتاب المساقاۃ / باب10)
لہذٰا اب ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے صرف خونخوار اور خطرناک کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ جس کسی حدیث میں صرف قتل کرنے کا حکم ہی ہے، وہ اجمالی طور پر بیان ہوئی ہیں۔ حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مفصل اور اجمالی دونوں قسم کی روایات اس کا ثبوت ہیں۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ و مطہرہ کی روایت اس کی تائید۔ اس کے علاوہ شکار، کھیتی اور جانوروں کی حفاظت کے لیے ایسے کاٹنے والے خطرناک کتوں کے لیے بھی یہ حکم ہرگز نہ تھا، کیونکہ وہ بے وجہ کبھی کسی پر نہیں جھپٹتے اور اپنی جگہ تک ہی محدود رہتے ہیں۔ البتہ جب یہ صورتحال سامنے آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید تخصیص فرماتے ہوئے صرف ایک خاص قسم کے کالے کتے تک اس حکم کو محدود فرما دیا۔ یقیناً یہ درندہ صفت کتوں پر تو "ظلم" ہی تھا، لیکن بے گناہ انسانوں پر احسان عظیم۔ اور باقی سارے درندوں کی طرح ملحدوں کی ان کتوں سے بھی ہمدردی بنتی بھی ہے۔
آئمہ و مجتہدین کی آراء بھی اس معاملے مختلف نہیں۔ اکثریت کی رائے وہی ہے جو احادیث ہی کی روشنی میں یہاں پیش ہوئی۔ ملاحظہ ہو:
علامہ بدر الدین عینی حنفی لکھتے ہیں: کاٹنے والے کتے کو قتل کرنے پر اجماع ہوچکا ہے۔ اور جو کتے بےضرر ہیں، ان میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ امام الحرمین کہتے ہیں، اولا حضور علیہ السلام نے سب کتوں کے قتل کا حکم دیا، جبکہ ترمذی، ابو داود اور ابن ماجہ کی یہ روایت امام الحرمین کے قول کا رد ہے، جس میں حضرت عبد اللہ بن مغفل سے مروی ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر کتے امتوں میں سے ایک امت نہ ہوتے تو میں ان سب کو قتل کرنے کا حکم دے دیتا۔ (یعنی سب کتوں کے قتل حکم کبھی دیا ہی نہیں)۔
علامہ مزید لکھتے ہیں کہ: حسن اور ابراہیم سیاہ کتے کے شکار کو بھی مکروہ کہتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل اور بعض شافعیہ کا بھی یہی موقف ہے کہ جب سیاہ کتا شکار کرے تو وہ حلال نہیں ہے۔ جبکہ امام ابو حنیفہ، امام مالک اور خود امام شافعی کے نزدیک سیاہ کتے کا شکار کیا ہوا بھی حلال ہے۔ (علامہ بدر الدین ابو محمد محمود بن احمد عینی حنفی، متوفی 855 ھ، عمدة القاری، ج 15، ص 302، مطبوعہ ادارة الطباعة المنیریہ مصر)
و آخر دعونا ان الحمد اللہ رب العالمین

خدا کی ذات کا ثبوت اور اس کے سائنسی دلائل (حصہ دوم)

خدا کی ذات کا ثبوت اور اس کے سائنسی دلائل
(حصہ دوم)
ویکیوم انرجی خدا کی صفت ہے اور ذہین توانائ بذات خود خدا کے وجود کی دلیل ہے کہ خدا یہاں موجود ہے کیونکہ ذہانت وجود کی دلیل
ملحدین کی منطق کہتی ہے کہ خدا کائنات سے باہر ہے سائنس کہتی ہے کائنات کے ہر ذرے میں ہے۔اب ملحدین کی منطق مانیں یا سائنس؟ ملحدین کے سکون سے بیٹھ کے چھوڑے گئے فلسفے اور منطق مانیں یا کئ سو سال کی سائنسی تحقیقات کا نچوڑ مانیں جن لوگوں نے تجربات سے اس منطق کو غلط ثابت کر دیا ؟پھر ملحد کہ دیں کہ منطق اور فلسفہ سائنس سے زیادہ مستند ہے۔یہ احمق پن بھی ظاہر کردیں۔جب کہ سائنس منطق اور فلسفے کے مفروضے تجربات سے غلط ثابت کر چکی ہے ان ملحدین کے۔ ملحدین کی منطق کو دنیا کے ذہین ترین انسان غلط ثابت کر چکے ہیں صرف ملحدین کی طرح کے خیالی نظریوں سے نہیں بلکہ تجربات سے۔
 اور کیا لازمی ہے کہ جب بندہ کوئ چیز تخلیق کرے تو اس کے اندر موجود نہ ہو؟کیا اپنا گھر بنانے کے بعد ملحد گھر میں نہیں ہوتے ؟یا باہر

خدا کی زات کا ثبوت ­اور اس کے سائنسی دلائ­ل

--خدا کی زات کا ثبوت ­اور اس کے سائنسی دلائ­ل
(Part one)
 خدا کی ذات کا اقرار ی­ا انکار کرنے سے پہلے ­لازمی ہے کہ خدا کی ذا­ت کی ایک تعریف متعین ­کی جائے کہ خدا کیا ہو­تا ہے۔تا کہ اس تعریف ­پہ ہم ان سب معبودوں ک­و پر کھیں جن کو خدا ک­ہا جاتا ہے۔پھر جو اس ­تعریف پہ پورا اترے گا­ ہم اسے خدا تسلیم کری­ں گے باقی سب کا انکار­ کر دیں گے۔
جس خدا کو میں خدا کہ­تا ہوں وہ خدا ہے جس ک­ی چار بنیادی صفات ہیں
وقت سے متاثر نہ ہونے­ والا یعنی دائمی
ہر جگہ موجود­
سب سے زیادہ طاقتور­
سب کچھ جاننے والا­
 جو چیز موجود ہی نہ ہ­و یا مکمل طور پر پوشی­دہ ہو... اس کے خصوصیا­ت پتہ نہ ہوں تو پھر ک­یسے اس کی ذات کے لیے ­تعریف متعین کی

Thursday, February 16, 2017

شرعی باندی سے بغیر نکاح قربت کی عقلی توجیہ

شرعی باندی سے بغیر نکاح قربت کی عقلی توجیہ
لونڈی، غلام اسلام کے دور اول میں یا تو وہ لوگ تھے جن کو صدیوں سے معاشرے کے غالب طبقے نے دبا رکھا تھا اور ان کی باقاعدہ تجارت ہوتی تھی اور منڈی میں قیمت لگتی تھی۔ اس غلامی کی بس اتنی سی قانونی پوزیشن تھی کہ وہ دنیا میں کسی چیز کے مالک نہ تھے اور جب سے انہوں نے ہوش سنبھالا اپنا بکنا بکانا دیکھا۔ نہ کوئی گھر، نہ وطن، نہ ان کی سوچ، نہ رائے، نہ ارادہ و اختیار، اس غلامی کو اسلام نے مختلف صورتوں سے کفارات و صدقات کی شکل میں ختم کیا اور کسی آزاد کو غلام بنانا گناہ کبیرہ قرار دیا۔ گویا آئندہ کے لئے غلامی
کا مستقل طور پر قلع قمع کر دیا،
 لونڈی غلام وہ لوگ تھے جن سے مسلمانوں نے جہاد کیا۔ وہ جنگی قیدی بنے ازاں بعد نہ تو تبادلہ اسیراں کی صورت پیدا ہوئی کیونکہ مسلمان کافروں کے پاس قیدی بنے ہی نہ تھے تبادلہ کس سے کرتے؟

روشنی کا مینار


روشنی کا مینار، تہذیب کا نقشہ گر
یہ ہے وہ معلمِ اخلاق جس نے برہنہ ہوچکی انسانیت کے تن کو تہذیب کی چادر از سر نو پہنائی۔ ظلم اور استحصال کی ایک
نہیں ہزاروں صورتیں ختم کرائیں!!!
 دین کا استحصال، اَخلاق کا استحصال، تہذیب کا استحصال، حق کا استحصال۔۔ ظلم اور جہالت کی کونسی صورت ہے جو اپنے عروج کو نہ پہنچ چکی تھی اور جسے خدا کے اِس آخری نبی نے نابود کئے بغیر چھوڑ دیا؟!!
 سب سے بڑا جھوٹ وہ ہے جو خدا کے نام پر بولا جائے۔ سب سے بڑا ظلم وہ ہے جو خدا کے نام پر روا رکھا جائے۔۔ انسان 

آدم علیہ السلام کے بعد مختلف زبانیں کیسے وجود میں آئیں


 تحریر۔بنیامین مہر
ایک بندے کا سوال ہے کہ اگر آدم علیہ السلام دنیا کے پہلے انسان تھے تو سب انسانوں کی رنگت اور زبان مختلف کیوں ہے؟ان کی پیغمبری کا محور کون لوگ تھے جب کہ وہ خود ہی پہلے انسان تھے؟
جواب۔۔۔۔

آدم ع پہلے انسان تھے۔ ان کی تبلیغ ان کی اولاد کی ہی پرورش اور ان کو دین سکھانا اور پھر ان کے بعد آنے