تحریر۔بنیامین مہر
ایک بندے کا سوال ہے کہ اگر آدم علیہ السلام دنیا کے پہلے انسان
تھے تو سب انسانوں کی رنگت اور زبان مختلف کیوں ہے؟ان کی پیغمبری کا محور کون لوگ
تھے جب کہ وہ خود ہی پہلے انسان تھے؟
جواب۔۔۔۔
آدم ع پہلے انسان تھے۔ ان کی تبلیغ ان کی اولاد کی ہی پرورش اور
ان کو دین سکھانا اور پھر ان کے بعد آنے
والے لوگ یعنی ان کی اولادیں۔
تمام جانداروں کے ڈی این اے کو
ٹریک بیک کیا جاۓ تو ایک جوڑے آدم و حوا سے ملیں گے۔ دوران تولید کروموسومز کا تبادلہ ہوتا ہے، سپنڈل فائبر پر ماں اور باپ کی خصوصیات مل کر نئ خصوصیت کا حامل انسان بنتا ہے۔ جس سے فنگر پرنٹ تک مختلف ہو جاتے ہیں۔ کئ نسلوں کے گزرنے کے بعد اوصاف میں تبدیلی ممکن ہے۔ ماحول بھی اثر کرتا ہے۔ تمام جانداروں کے ڈی این کا ٹریک جس ایک جوڑے پر جا کر ملتا ہے سائنس اس کو مائٹوکونڈریل ایِو اور y کروموسومآدم کہتی ہے۔ مگر سائنس کے ہاں اس بات میں اختلاف ہے کہ وہ کب اس دنیا میں تھے اور وہ اکٹھے تھے یا مختلف ادوار میں۔ بحرحال یہ کوئ بڑا مسلہ نہیں۔
اسی طرح سے اگر مختلف زبانوں کو ٹریک بیک کیا جاۓ تو وہ بھی ایک زبان پر ہی جا کر ملیں گی جس زبان سے تمام زبانوں کا آغاز ہوا۔ جیسے جیسے انسانوں کی آبادیوں کے درمیان فاصلہ بڑھتا ہے مختلف الفاظ اور لہجے وجود میں آتے ہیں۔ جیسے پنجابی کے کئ لہجے ہیں زبان وہی ہے۔ ایک دم سے زبان نہیں بدل جاتی۔ گوجرانوالہ سے پہاولپور کی طرف سفر شروع کر دیں۔ ہر سو کلو میٹر کے بعد الفاظ کی ادائیگی اور لہجے میں فرق دیکھنے کو ملے گا۔ بہاولپور پہنچتے ہوۓ زبان ہی بدل چکی ہو گی۔ یہ ایک قدرتی امر ہے کہ ایک جگہ پر رہنے والے لوگ ایک جیسی زبان بولتے ہیں اور فاصلہ بڑھنے سے لہجے اور الفاظ کے ساتھ زبان بھی بدل جاتی ہے۔ ان سب زبانوں کو ٹریک کیا جا سکتا ہے جو ایک زبان پر ملیں گی۔
والے لوگ یعنی ان کی اولادیں۔
تمام جانداروں کے ڈی این اے کو
ٹریک بیک کیا جاۓ تو ایک جوڑے آدم و حوا سے ملیں گے۔ دوران تولید کروموسومز کا تبادلہ ہوتا ہے، سپنڈل فائبر پر ماں اور باپ کی خصوصیات مل کر نئ خصوصیت کا حامل انسان بنتا ہے۔ جس سے فنگر پرنٹ تک مختلف ہو جاتے ہیں۔ کئ نسلوں کے گزرنے کے بعد اوصاف میں تبدیلی ممکن ہے۔ ماحول بھی اثر کرتا ہے۔ تمام جانداروں کے ڈی این کا ٹریک جس ایک جوڑے پر جا کر ملتا ہے سائنس اس کو مائٹوکونڈریل ایِو اور y کروموسومآدم کہتی ہے۔ مگر سائنس کے ہاں اس بات میں اختلاف ہے کہ وہ کب اس دنیا میں تھے اور وہ اکٹھے تھے یا مختلف ادوار میں۔ بحرحال یہ کوئ بڑا مسلہ نہیں۔
اسی طرح سے اگر مختلف زبانوں کو ٹریک بیک کیا جاۓ تو وہ بھی ایک زبان پر ہی جا کر ملیں گی جس زبان سے تمام زبانوں کا آغاز ہوا۔ جیسے جیسے انسانوں کی آبادیوں کے درمیان فاصلہ بڑھتا ہے مختلف الفاظ اور لہجے وجود میں آتے ہیں۔ جیسے پنجابی کے کئ لہجے ہیں زبان وہی ہے۔ ایک دم سے زبان نہیں بدل جاتی۔ گوجرانوالہ سے پہاولپور کی طرف سفر شروع کر دیں۔ ہر سو کلو میٹر کے بعد الفاظ کی ادائیگی اور لہجے میں فرق دیکھنے کو ملے گا۔ بہاولپور پہنچتے ہوۓ زبان ہی بدل چکی ہو گی۔ یہ ایک قدرتی امر ہے کہ ایک جگہ پر رہنے والے لوگ ایک جیسی زبان بولتے ہیں اور فاصلہ بڑھنے سے لہجے اور الفاظ کے ساتھ زبان بھی بدل جاتی ہے۔ ان سب زبانوں کو ٹریک کیا جا سکتا ہے جو ایک زبان پر ملیں گی۔
اپریل
2011 کی ایک نئ تحقیق کے مطابق دنیا کی تمام زبانیں زمانہ قبل از تاریخ میں بولی
جانے والی ایک ہی زبان سے نکلی ہیں جو آج سے ایک لاکھ سال پہلے بولی جاتی تھی۔دنیا
کی پانچ سو زبانوں پر تحقیق کے بعد ڈاکٹر کوئنٹن ایٹکنسن ۔۔۔۔Quintine
Atkinson...نے دریافت کیا کہ ان سب زبانوں کی ابتدا ایک
ایسی زبان میں پائ جا سکتی ہے جو ہمارے پتھر کے زمانے کے اباء و اجداد بولا کرتے
تھے۔
حوالہ
حوالہ
اس
بارے میں ایک اور سائنسی تحقیق کے مطابق دنیا کی چھ ہزار زبانوں پر تحقیق سے
اندازہ لگایا گیا ہے کہ ان سب کا ماخذ ایک ہی زبان ہے جو آج سے پچاس سے ستر ہزار
سال قبل بولی جاتی تھی۔ یہ تحقیق اپریل 2011ء میں وال سٹریٹ جرنل میں شائع ہوئ۔اس
کا حوالہ یہ ہے
(
تمام انسان کیسے آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں؟اس بات کا
جینیٹکس سے کیا ثبوت ہے کہ آدم علیہ السلام سے پہلے دنیا میں کوئ بھی اور انسان
نہیں تھا؟ ملحدین کے اس اعتراض و سوال پر انتظامیہ کی طرف سے ایک زبردست سائنسی
مضمون مکمل جینیٹکس کی جدید تحقیقات کے ساتھ مرتب کیا جا چکا ہے جسے اردو ترجمہ کر
کے جلد ہی پیش کیا جائے گا جس میں سائنس کی جدید تحقیقات سے ثابت کیا جائے گا کہ
آدم و حوا السلام ہی دنیا کے پہلے انسان تھے اور موجودہ سب انسانوں کا جینیاتی
تنوع یا
genetic diversity
محض پہلے دو انسانوں
آدم و حوا علیہ السلام کی وجہ سے ہے)۔
No comments:
Post a Comment