Thursday, February 16, 2017

شرعی باندی سے بغیر نکاح قربت کی عقلی توجیہ

شرعی باندی سے بغیر نکاح قربت کی عقلی توجیہ
لونڈی، غلام اسلام کے دور اول میں یا تو وہ لوگ تھے جن کو صدیوں سے معاشرے کے غالب طبقے نے دبا رکھا تھا اور ان کی باقاعدہ تجارت ہوتی تھی اور منڈی میں قیمت لگتی تھی۔ اس غلامی کی بس اتنی سی قانونی پوزیشن تھی کہ وہ دنیا میں کسی چیز کے مالک نہ تھے اور جب سے انہوں نے ہوش سنبھالا اپنا بکنا بکانا دیکھا۔ نہ کوئی گھر، نہ وطن، نہ ان کی سوچ، نہ رائے، نہ ارادہ و اختیار، اس غلامی کو اسلام نے مختلف صورتوں سے کفارات و صدقات کی شکل میں ختم کیا اور کسی آزاد کو غلام بنانا گناہ کبیرہ قرار دیا۔ گویا آئندہ کے لئے غلامی
کا مستقل طور پر قلع قمع کر دیا،
 لونڈی غلام وہ لوگ تھے جن سے مسلمانوں نے جہاد کیا۔ وہ جنگی قیدی بنے ازاں بعد نہ تو تبادلہ اسیراں کی صورت پیدا ہوئی کیونکہ مسلمان کافروں کے پاس قیدی بنے ہی نہ تھے تبادلہ کس سے کرتے؟

آج دنیا میں کہیں بھی شرعاً و قانوناً نہ کوئی غلام ہے نہ لونڈی۔ جب کبھی کفار سے اسلامی حکم کے مطابق جہاد فی سبیل اﷲ ہو گا، ان شاء اﷲ ہم فاتح ہوں گے، دشمن کے لوگ ہمارے جنگی قیدی بنیں گے پھر ہم ان کو قرآنی حکم کے مطابق احسان کر کے مفت یا فدیہ لے کر آزاد کریں گے۔ ہاں جو جنگی جرائم میں ملوث ہوئے، غدار ہوئے، مسلمانوں پر بلاجواز ستم کے مرتکب پائے گئے ان کو آزاد کرنا ہماری قومی سلامتی کے لئے خطرناک ہوا، وہ اﷲ و رسول کی جناب میں حد درجہ گستاخی و بے ادبی کے مرتکب پائے گئے یا ہم ان کو احسان کر کے آزاد کرتے ہیں مگر وہ ہمارے حسن سلوک اور اسلامی معاشرتی اقدار سے اس قدر متاثر ہیں کہ واپس اپنے ملک جانے پر تیار نہیں بلکہ ہمارے پاس رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ ہیں وہ مجبوری کی صورتیں جن میں ہم ان کو جان کی امان دے کر اپنے پاس رہنے کی اجازت دے رہے ہیں۔ اب اگر ہم مناسب سمجھیں تو ان کو غلام لونڈیاں بنا سکیں گے۔ اس میں ان کا بھلا، تحفظ اور ان کی امان ہے۔ یہ ہماری خوشی نہیں مجبوری ہے کیونکہ انہیں فوری طور پر غذا، رہائش اور تحفظ کی ضرورت ہے۔ یہ دراصل ان سے رعایتی برتاؤ ہے۔
 اس ایک جنگی مجبوری کے سوا اسلام میں کسی آزاد کو لونڈی یا غلام بنانا جائز نہیں۔ کوئی زبردست قوم یا فرد کسی کو ناحق، اپنا محکوم بنا لے تو اس کو اسلام ظلم اور اس کی قیمت کو حرام قرار دیتا ہے۔
باندی کے حلال ہونے کی توجیہہ :
اب آتے ہیں اس مسئلہ کی طرف کہ باندی کیونکہ حلال ہوتی ہے سوچئے کہ ایک اجنبی عورت جس کو دیکھنے، سننے اور خلوت نشین ہونے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا گیا ہے۔ دوگواہوں کے سامنے حق مہر کے عوض ایجاب و قبول کے دو لفظ بولنے سے اتنی بڑی تبدیلی کیسے آ گئی کہ آپ اس سے بے تکلف ہمکلام ہونے لگے بلکہ اس کے ہمراہ خلوت نشین اور بے پردہ ہو گئے۔ آپ میاں بیوی بن گئے۔ ایک منٹ میں وہ حقوق و فرائض سامنے آ گئے ہیں جن کا تصور بھی ناممکن تھا۔ دراصل یہ چند الفاظ بذاتہ کچھ نہ تھے، ان کو اﷲ تعالیٰ و رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم نے قانونی حیثیت دیدی، یہی نکاح کہلاتا ہے۔ پس اسی طرح اﷲ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جیسے منکوحہ بیوی سے قربت حلال فرما دی اسی طرح اس لونڈی سے بھی قربت بحیثیت لونڈی حلال فرما دی جو شادی شدہ نہ ہو یا ہو تو اس کا خاوند دارالحرب میں ہو اور وہ بی بی جنگی قیدی بن گئی۔ نہ فدیہ کی صورت بنی، نہ احسان کی صورت اور نہ تبادلہ کی۔ اس کو قرآن کریم میں اس طرح بیان فرمایا ہے۔
وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ
(النساء، 4 : 24)
 ’’اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پر حرام ہیں) سوائے ان (جنگی قیدی عورتوں) کے جو تمہاری مِلک میں آ جائیں‘‘
 
أی هن محرمات الا ما ملکت اليمين بالسبی من أرض الحرب فان تلک حلال للذی تقع فی سمهه وان کان له زوج. أی فهن لکم حلال اذا انقضت عدتهن.
 ’’یعنی خاوندوں والیاں تم پر حرام ہیں مگر وہ باندیاں خواہ خاوندوں والی ہوں جو دارالحرب سے قید ہو کر تمہاری ملکیت میں آ گئیں کہ وہ جس کے حصہ میں آہیں اس کے لئے حلال ہیں۔ اگرچہ ان کے خاوند (دارالحرب میں ہوں)۔ یعنی وہ تمہارے لئے حلال ہیں جب ان کی عدت گزر جائے۔‘‘
یہی مذہب ہے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، امام ابو عبد اﷲ بن محمد بن احمد انصاری قرطبی کا۔
(الجامع الاحکام القرآ،ن ص، 5 : 80، طبیع بیروت)
 اس میں سب کا اتفاق ہے کہ جب میاں بیوی میں سے ایک جنگی قیدی بن جائے اور اسے دارالاسلام میں لے آیا جائے تو میاں بیوی میں فرقت ہو جائے گی۔‘‘ اور اگر دونوں ایک قیدی کر کے لائے جائیں تو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ان کا نکاح ختم اور مالک کو جازت ہے کہ اگر حاملہ ہے تو بچے کی پیدائش اور غیر حاملہ ہے تو حیض کے ذریعے استبراء رحم کرنے کے بعد اس سے قربت کر لے، اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول یہ ہے کہ اس صورت میں نکاح ختم نہیں ہوا۔ لہٰذا کسی دوسرے کے لئے یعنی مالک کے لئے اس سے قربت جائز نہیں۔
اما رازی، تفسیر کبیر، 10 :  41
شرعی باندیوں سے قربت :
إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَo ففَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْعَادُونَo
المؤمنون، 23 : 6.7
 ’’سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بے شک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں۔ پھر جو شخص ان (حلال عورتوں) کے سوا کسی اور کا خواہش مند ہوا تو ایسے لوگ ہی حد سے تجاوز کرنے والے (سرکش) ہیں۔‘‘
یہ دو آیتیں اس باب میں قطعی دلیل ہیں کہ کسی شخص کے لئے جائز قربت کی صرف دو صورتیں ہیں۔ ایک نکاح اور دوسری شرعی باندی (ملکِ یمین)۔ جب اﷲ تعالیٰ نے خود ان قربت کی دو صورتوں کو جائز قرار دے کر باقی تمام دروازے حرام کر دیئے تو کون ہے جو اﷲ کے حلال کو حرام یا حرام کو حلال قررا دے؟ حلال و حرام ہونے کا سبب اﷲ کا حکم ہے۔ جس نے نکاح اور ملکِ یمین‘‘ کو صحتِ قربت کا ذریعہ قرار دے کر باقی تمام صورتوں مثلاً بدکار، متعہ وغیرہ کو حرام و ممنوع قرار دے دیا۔

مفتی عبدالقیوم ہزاروی صاحب کے ایک فتوے سے انتخاب۔
از فیصل ریاض شاہد

No comments:

Post a Comment