--خدا کی زات کا ثبوت اور اس کے سائنسی دلائل
(Part one)
خدا کی ذات کا اقرار یا انکار کرنے سے پہلے لازمی ہے کہ خدا کی ذات کی ایک تعریف متعین کی جائے کہ خدا کیا ہوتا ہے۔تا کہ اس تعریف پہ ہم ان سب معبودوں کو پر کھیں جن کو خدا کہا جاتا ہے۔پھر جو اس تعریف پہ پورا اترے گا ہم اسے خدا تسلیم کریں گے باقی سب کا انکار کر دیں گے۔
جس خدا کو میں خدا کہتا ہوں وہ خدا ہے جس کی چار بنیادی صفات ہیں
وقت سے متاثر نہ ہونے والا یعنی دائمی
ہر جگہ موجود
سب سے زیادہ طاقتور
سب کچھ جاننے والا
جو چیز موجود ہی نہ ہو یا مکمل طور پر پوشیدہ ہو... اس کے خصوصیات پتہ نہ ہوں تو پھر کیسے اس کی ذات کے لیے تعریف متعین کی
جا سکتی ہے...(Part one)
خدا کی ذات کا اقرار یا انکار کرنے سے پہلے لازمی ہے کہ خدا کی ذات کی ایک تعریف متعین کی جائے کہ خدا کیا ہوتا ہے۔تا کہ اس تعریف پہ ہم ان سب معبودوں کو پر کھیں جن کو خدا کہا جاتا ہے۔پھر جو اس تعریف پہ پورا اترے گا ہم اسے خدا تسلیم کریں گے باقی سب کا انکار کر دیں گے۔
جس خدا کو میں خدا کہتا ہوں وہ خدا ہے جس کی چار بنیادی صفات ہیں
وقت سے متاثر نہ ہونے والا یعنی دائمی
ہر جگہ موجود
سب سے زیادہ طاقتور
سب کچھ جاننے والا
جو چیز موجود ہی نہ ہو یا مکمل طور پر پوشیدہ ہو... اس کے خصوصیات پتہ نہ ہوں تو پھر کیسے اس کی ذات کے لیے تعریف متعین کی
موجود کا وجود ثابت کرنے کے لیے ہی یہ ساری بات ہورہی ہے۔جہاں تک بات ہے پوشیدہ ہونے کی تو کسی چیز کا پوشیدہ ہونا اس کی خصوصیات کی نفی نہیں کرتا۔ایٹم ،الیکٹران،پروٹان،نیوٹران،کوارک،نیوٹرائینو،الفاویوز،بیکٹیریا،وائرس سب پوشیدہ ہیں لیکن سب کی خصوصیات پہ سائنس میں کتابیں ہی نہیں بلکہ انسائیکلو پیڈیا لکھے جا چکے ہیں۔
اس لیے جو چیز پوشیدہ ہو وہ ہماری نظر کا قصور ہے اور محض اپنے علم کے قصور سے ہم اس پوشیدہ چیز کی خصوصیات کا انکار نہیں کرتے۔
یہ تعریف مذہب نے متعین کی لہزا لوگ مذہب والوں سے سوال کرتے ۔ہیں۔اس تعریف کو میں انشاءاللہ اپنے رب پہ ثابت کر کے پیش کر رہا ہوں۔
یہ 17866 کی بات ہے۔ولیم ہرشل اور اس کی بہن نے مل کے سیارہ یورینس دریافت کیا۔جس کا مدار مقررہ اندازے سے مختلف تھا۔لہزا مفروضہ پیش ہوا کہ یورینس کے باہر ایک اور سیارہ موجود ہے جو یہ مدار متاثر کر رہا ہے۔یہ دعوی تھا اور یہ 1846 میں تب ثابت ہوا جب نیپچون سیارہ دریافت ہوا۔میں بھی کہتا ہوں کہ میرا خدا ہے جو پوری کائنات کو متاثر کررہا ہے،جیسے بجلی کو ہم نہیں دیکھ سکتے لیکن لیکن اس کی خصوصیات پرکھ سکتے ہیں اس طرح جیسے ہم ذہانت کو نہیں دیکھتے لیکن اسے باپ سکتے ہیں۔میرا دعوی ہے اسی طرح ہم خدا کے وجود کو مان کے اس کی خصوصیات کو بھی ثابت کر سکتے ہیں۔
اس طرح دعوی کیاگیا کہ ایک ایٹم ہیوی ویٹ کا ہے نیم ٹھوس ہے ملٹنگ پوائنٹ کم ہے۔یہ دعوی جرمینیم ایلیمنٹ کی دریافت کے بعد سچ ثابت ہوا۔
خدا کی پہلی خصوصیت کہ دائمی اور وقت سے متاثر ہونے والا۔اس کا ساینسی ثبوت:
دائمی اور وقت سے متاثر نہ ہونے والا eternal.وارن ہیزنبرگ کے uncertainty principlee کے مطابق ایک ہی وقت میں الیکٹران کے مقام اور ولاسٹی کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔اس کے مطابق تمام الیکٹران ایک نامعلوم قوت سے متاثر ہوتے ہیں جس سے ان کا مقام اور والاسٹی ایک ہی وقت میں معلوم نہیں کی جا سکتی۔
مالکوم ڈبلیو براؤن کے in signal travel and faster than speed of light کی تحقیقات کے مطابق تمام الیکٹران تمام الیکٹران کو ایک قوت متاثر کرتی اور جورتی ہے جو کہ ہمارے وقت میں ہے لیکن اس سے متاثر نہیں ہوتی۔چونکہ الیکٹران پوری کائنات میں موجود ہیں لہذا ان کو متاثر کرنے والی یہ قوت بھی پوری کائنات میں موجود ہے۔
لیذا ثابت یو گیا کی ایک ایسی نامعلوم قوت موجود ہے جو الیکٹران کو بھی اپنے اثر اے آزاد نہیں کرتی اور کائنات میں ہر جگہ موجود ہے۔ہر جگہ موجود ہونے کا تصور سچ ثابت ہوگیا کی ایسی قوت یا توانائ ہوسکتی ہے جو کائنات میں ہر جگہ موجود ہو۔
اس کے مطابق دو سپیس میں دور موجود مادی اجزاء یعنی الیکٹران میں سے کوئ جب اس وقت سے متاثر ہوتا ہے دور موجود دوسرا الیکٹران خود بخود متاثر ہوتا ہے۔یعنی یہ قوت ایک پی وقت میں کائنات کے مختلف عوامل پہ اثر انداز کوسکتی ہے اور پوری کائنات میں موجود ہے۔
یہ قوت سب الیکٹران کو متاثر کرتی ہے۔اس تصور کو اب quantum entanglementt کہا جاتا ہے۔
اب میں خدا کی دوسری خصوصیت یعنی ہر جگہ موجود پہ آتا ہوں۔
کوانٹم مکینکس کے مطابق الیکٹران پوری کائنات میں موجود ہیں اور ہر جگہ اس قوت کے اثر میں ہین لہزا یہ قوت کائنات کے ہر کونے میں موجود ہے۔
اس کا دوسرا ثبوت یہ ہے:
ویکیوم انرجی وہ انرجی ہے حو پوری کائنات میں موجود ہے۔جس سے مادی ذرات بنے اور پھر ان سے کائنات بنی۔یہ قوت بھی کوانٹم فزکس کے مطابق ہر جگہ موجود ہے۔جس نے کائنات کو تخلیق کیا۔ہر جگہ موجود ہونا ثابت ہوگیا۔
میں اپنے ثبوت میں مادی نہیں وہ قوت بیان کر رہاہون جو اس سارے مادے کو متاثر کرتی ہے۔کوئ مادہ اس کے اثر سے باہر نہیں۔
اب میں اپنے تیسرے نقطے یعنی سب سے طاقتور پہ آتا ہوں۔
اس قوت نے ویکیوم انرجی کی صورت میں کوانٹم فلکچویشن سے اپنے اندر سے ورچول پارٹیکلز کو بنایا یعنی یہ پہلے تھی مادہ بعد میں اس سے بنا۔ کائنات میں ہر جگہ موجود ہو کر اس نے پہلے چھوٹے ذرات پھر ایٹم مالیکیول پھر ان سے ستارے سیارے کہکیشاؤں کو پوری کائنات کو بنایا ۔اب جو قوت اتنی بڑی کائنات تخلیق کر دے اس سے بڑا طاقتور کون ہو سکتا ہے۔
مادہ اور توانائ ایک ہی چیز کے دورخ ہیں ٹھیک لیکن پہلے مادہ نہیں تھا۔ویکیوم انرجی تھی جس سے یہ مادہ اور پوری کائنات کوانٹم فلکچویشن سے بنی۔لہذا مادہ اپنے وجود اور پیدائش کے لیے اس توانائ کا محتاج تھا۔یہ نہ ہوتی تو مادہ بھی نہ بنتا اس سے۔لہزا یہ قوت مادے سے بڑھ کے ہوئ سب سے بڑی طاقتور جس نے خود سے کائنات کے سب مادے اور پوری کائنات کو تخلیق کیا۔اس سے بڑا طاقتور کون ہو سکتا ہے جو کائنات بنا کے رکھ دے۔سب سے بڑا طاقتور ہونا ثابت ہوگیا۔
اب تک ہر جگہ موجود ہونا ثابت،وقت کے اثر سے آزاد ہونا ثابت،کائنات تخلیق کر کے سب سے بڑی طاقت ہونا ثابت۔اب آگے چلتے ہیں۔
دوسرا ثبوت تھرمو ڈائنامکس کے پہلے قانون کے مطابق توانائی نہ پیدا کی جاسکتی ہے نہ فنا کی جاسکتی ہے۔اور یہ توانائ تھی بھی مادے سے پہلے۔بذات خود مادہ اس توانائ سے بنا۔یہ نہ ہوتی تو مادہ بھی نہ ہوتا۔اس نے کچھ کے نہ ہونے سے اتنی بڑی کائنات کو بنا کے رکھ دیا۔
دوسری بات یہ کہ تھرمو ڈائنامکس کے پہلے قانوں کے مطابق توانائی کو پیدا نہیں کیا جا سکتا یعنی یہ ہمیشہ سے ہے اور زمان یا وقت کے اثر سے آزاد ہے۔اس نے پوری کائنات کو تخلیق کیا یعنی مکان بھی اس نے بنایا لہذا یہ زمان و مکان یاٹائم اینڈ سپیس سے آزاد ہے۔
مادہ ایسی توانائ سے وجود میں لایا گیا جو کائنات میں ہر حگہ موجود،ہمیشہ سے موجود،سب سے بڑی طاقتور یہ سب خدا کی خصوصیات کا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے۔ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ کائنات عدم سے وجود میں لائ گئ۔پہلے سوا اس توانائ کے کچھ بھی نہیں تھا جو موجود،سب سے بڑی طاقتور،ہمیشہ سے آزاد یہ خدا کا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے۔
اگر کائنات عدم سے وجود میں آگئی ہے تو اس وہ انرجی کا کیا رول رہ گیا..... اگر اس انرجی نے مادہ پیدا کیا تو پھر کائنات عدم سے کیسے وجود میں آیا....
اس انرجی کا رول یہ ہے کہ اسی نے ہی یہ سب مادہ اور کائنات پیدا کی۔وہ نہ ہوتی تو کچھ نہ ہوتا۔اس انرجی نے ہی کائنات کو عدم سے پیدا کیا۔
آپ اس توانائ کا وجود نہیں ٹھکرا سکتے۔میں نے سائنسی دلائل دیے۔اس کا وجود ٹھکرانے کے لیے آپ کو سائنس کا انکار کرنا پڑے گا۔
ایک ساینسی تصور ہے جسے کوانٹم بیلنسنگ کہتے ہیں۔اب میں اس پہ آتا ہوں۔
روس میں ایک تجربہ ہوا۔اس کا بیان:
روس میں سائنسدانوں نے ایک ٹیسٹ ٹیوب میں خلا یا ویکیوم پیدا کیا سکشن اپریٹس سے۔اس میں انہوں نے دیکھا کہ توانائ رکھنے والے فوٹان وراثتی مادے یا ڈی این اے کے بننے کو کیسے متاثر کر سکتے ہیں۔اس میں انہوں نے دیکھا کہ انرجی فوٹان کو پہلے سے پتہ تھا کہ کونسے ڈی این اے مالیکیول کو کہاں ملانا ہے۔اس توانائ نے وراثتی مادے کو ڈئ این اے مالیکیول آنے سے پہلے خود آکر اس کے آنے کے بعد اس مالیکیول کو ترتیب دیا۔اب ڈئ این اے وراثتی مادہ ہے۔اگر یہ توانائ زندگی کی بنیاد یعنی وراثتی مادے کو ترتیب دے سکتی ہے جس سے پھر زندہ اشیاء اور پروٹین بنتی ہیں اور اس کو یہ بھی پتہ ہے کہ اس ڈی این اے کو ایسے بنانا ہے اور یہ وہاں پہلے آگئی تو یہ اس توانائ کے زندگی کے بنیادی اجزاء اور پہلے سے اشیاء کا علم یا علم الغیب رکھنے کا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے۔یہ بھی ثابت یوگیا کہ یہ توانائ کائناتی عوامل کا علم رکھتی یے اور ان کو انجام دینے کے لیے پہلے ہی آجاتی ہے اس،کے مادی ذرات کے آنے سے پہلے۔اب یہ عالم الغیوب ہونے کا ثبوت ہوگیا۔
اب اس کا مزید ثبوت:
ڈبل سلٹ کا تجربہ۔اس تجربے میں الیکٹران کو ایک ڈبل سلٹ سے گزارا گیا اور اس کے دوسری طرف ایک کیمرا رکھ دیا گیا جو ان کو شناخت کرتا۔جب کیمرا ان الیکٹران کو دیکھتا تو یہ ایک ذرے کی طرح تعامل کرتے اور جب نہ دیکھتا تو یہ ایک موج کی طرح۔یعنی کائنات کی ہر چیز دو خصوصیات رکھتی ہے ایک زراتی اور ایک ویو۔آگر خدا مادی یا زراتی طور پہ عمل کرے تو عرش پہ موجود اور اگر ایک ویو بطور عمل کرے تو پوری کائنات میں موجود۔ایک ہی وقت میں خدا کا عرش اور کائنات میں موجود ہونا ثابت ہو گیا۔یہ در حقیقت uncertainty principle کا دوسرا نقطہ ہے۔
19700 کے عشرے کے اوائل میں روجر ووگلسینگ نے ایک آلہ بنایا جسے اس نے ایس ٹی آئ یا self thinking interface کا نام دیا۔اب اس کی وضاحت:
اس میں اس نے الیکٹران اور ان کو متاثر کرنے والی توانائ استعمال کی۔اس نے دیکھا کہ یہ توانائ خود بخود کمپیوٹر پہ الفاظ ٹائپ کر سکتی تھی،اس کے خیالات پڑھ سکتی تھی۔وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔اسے یقین آگیا کہ ایک ایسی نامعلوم قوت کائنات میں موجود ہے جو پہلے سے سب اشیاء کا علم رکھتی یے یعنی عالم الغیوب ہے۔یہ دیکھ کے وہ خدا کی شان میں پکار اٹھا
We can thank God for the coming mental paradigm shift, even the bloodshed it brings to get things restarted correctly with a Self thinking interfacig device directly to God!"
اب ایک سائنسدان خدا کی یہ نشانی دیکھ کے خدا پہ ایمان لا چکا ہے۔ہم کیوں نہ لائیں۔
اب میں چاروں صفات خداوندی کا سائنسی ثبوت پیش کر چکا ہوں۔اب آگے چلتے ہیں۔
اگر زمین جتنی جسامت کی ہے اس سے چھوٹی ہوتی تو اس کا کرہ ہوای یا ایٹما سفیر نہ ہوتا اگر یہ اس سے بڑی ہوتی تو اس کی فضا میں مشتری کی طرح ہائیڈروجن زیادہ ہوجاتی۔دونوں صورتوں میں اس پہ زندگی کا وجود ناممکن ہو جاتا۔
زمین جتنے فاصلے پی سورج سے ہے اگر یہ فاصلہ ایک فریکشن بھی کم ہوتا تو زندگی جل جاتی اور اگر زیادہ ہوتا تو یہ جم جاتی۔
اگر زمین اپنے محور کے گرد گردش نہ کرتی تو زمیں کے کچھ حصے ٹھنڈے باقی گرم ہوجاتے۔
کیا یہ سب ایک اتفاق تھا؟جب کہ سائنسداں خود اعتراف کر چکے ہیں کہ کائنات میں ایک ایسی ذہانت والی ہستی موجود ہے جس نے یہ سب کیا۔اس ہستی کو وہ عالمگیر ذہانت یا universal intelligence کہتے ہیں۔
پانی کے جمنے اور ابلنے کے درجہ حرارت میں سو کا فرق ہے۔اگر یہ فرق نہ ہوتا تو درجہ حرارت کی تبدیلیوں سے زندہ خلیوں یا سیلز میں موجود مالیکول اس کے جمنے یا ابلنے سے تباہ ہوجاتے اور زندگی ناممکن ہوجاتی۔
اگر پانی میں ہر چیز حل کرنے کی صلاحیت نہ ہوتی تو یہ خون میں زندگی کے لیے لازمی غذائی اجزا نہ پہنچا پاتا پورے جسم کو
پانی کا ایک سرفیس ٹینشن نہ ہوتا تو پانی کشش ثقل یا گریویٹی کے خلاف اوپر کو جا کر پودے۔ کو پانی فراہم نہ کر سکتا
اگر پانی اوپر سے نیچے کی بجائے نیچے سے اوپر کو جمتا تو اس میں موجود آبی حیات مر جاتی۔کیا یہ سب اتفاقی ہے؟خود بخود ہو گیا؟
اگر زمین پہ آبی بخارات اور بارشوں کا نظام نہ ہوتا تو زمیں کا پانی کب کا ناخالص ہو چکا ہوتا۔کیا یہ سب ایک اتفاق تھا؟
انسانی ذہن ایک وقت میں دس لاکھ سے زیادہ پیغامات پراسیس کر سکتا ہے۔کیا ایسی طاقتور مشین کوئ بنا سکتا ہے؟
آج تک سائنس کو ٹھیک سے سمجھ نہیں آیا کہ یہ سب حیران کن حد تک ہوگیا۔اس لیے اب وہ عالمگیر ذہانت کا لفظ استعمال کرتے ہیں جسے ہم خدا کہتے ہیں۔
فلکیات کے مایر فزکس روبرٹ جیسٹرو لکھتے ہیں
لیذا ثابت یو گیا کی ایک ایسی نامعلوم قوت موجود ہے جو الیکٹران کو بھی اپنے اثر اے آزاد نہیں کرتی اور کائنات میں ہر جگہ موجود ہے۔ہر جگہ موجود ہونے کا تصور سچ ثابت ہوگیا کی ایسی قوت یا توانائ ہوسکتی ہے جو کائنات میں ہر جگہ موجود ہو۔
اس کے مطابق دو سپیس میں دور موجود مادی اجزاء یعنی الیکٹران میں سے کوئ جب اس وقت سے متاثر ہوتا ہے دور موجود دوسرا الیکٹران خود بخود متاثر ہوتا ہے۔یعنی یہ قوت ایک پی وقت میں کائنات کے مختلف عوامل پہ اثر انداز کوسکتی ہے اور پوری کائنات میں موجود ہے۔
یہ قوت سب الیکٹران کو متاثر کرتی ہے۔اس تصور کو اب quantum entanglementt کہا جاتا ہے۔
اب میں خدا کی دوسری خصوصیت یعنی ہر جگہ موجود پہ آتا ہوں۔
کوانٹم مکینکس کے مطابق الیکٹران پوری کائنات میں موجود ہیں اور ہر جگہ اس قوت کے اثر میں ہین لہزا یہ قوت کائنات کے ہر کونے میں موجود ہے۔
اس کا دوسرا ثبوت یہ ہے:
ویکیوم انرجی وہ انرجی ہے حو پوری کائنات میں موجود ہے۔جس سے مادی ذرات بنے اور پھر ان سے کائنات بنی۔یہ قوت بھی کوانٹم فزکس کے مطابق ہر جگہ موجود ہے۔جس نے کائنات کو تخلیق کیا۔ہر جگہ موجود ہونا ثابت ہوگیا۔
میں اپنے ثبوت میں مادی نہیں وہ قوت بیان کر رہاہون جو اس سارے مادے کو متاثر کرتی ہے۔کوئ مادہ اس کے اثر سے باہر نہیں۔
اب میں اپنے تیسرے نقطے یعنی سب سے طاقتور پہ آتا ہوں۔
اس قوت نے ویکیوم انرجی کی صورت میں کوانٹم فلکچویشن سے اپنے اندر سے ورچول پارٹیکلز کو بنایا یعنی یہ پہلے تھی مادہ بعد میں اس سے بنا۔ کائنات میں ہر جگہ موجود ہو کر اس نے پہلے چھوٹے ذرات پھر ایٹم مالیکیول پھر ان سے ستارے سیارے کہکیشاؤں کو پوری کائنات کو بنایا ۔اب جو قوت اتنی بڑی کائنات تخلیق کر دے اس سے بڑا طاقتور کون ہو سکتا ہے۔
مادہ اور توانائ ایک ہی چیز کے دورخ ہیں ٹھیک لیکن پہلے مادہ نہیں تھا۔ویکیوم انرجی تھی جس سے یہ مادہ اور پوری کائنات کوانٹم فلکچویشن سے بنی۔لہذا مادہ اپنے وجود اور پیدائش کے لیے اس توانائ کا محتاج تھا۔یہ نہ ہوتی تو مادہ بھی نہ بنتا اس سے۔لہزا یہ قوت مادے سے بڑھ کے ہوئ سب سے بڑی طاقتور جس نے خود سے کائنات کے سب مادے اور پوری کائنات کو تخلیق کیا۔اس سے بڑا طاقتور کون ہو سکتا ہے جو کائنات بنا کے رکھ دے۔سب سے بڑا طاقتور ہونا ثابت ہوگیا۔
اب تک ہر جگہ موجود ہونا ثابت،وقت کے اثر سے آزاد ہونا ثابت،کائنات تخلیق کر کے سب سے بڑی طاقت ہونا ثابت۔اب آگے چلتے ہیں۔
دوسرا ثبوت تھرمو ڈائنامکس کے پہلے قانون کے مطابق توانائی نہ پیدا کی جاسکتی ہے نہ فنا کی جاسکتی ہے۔اور یہ توانائ تھی بھی مادے سے پہلے۔بذات خود مادہ اس توانائ سے بنا۔یہ نہ ہوتی تو مادہ بھی نہ ہوتا۔اس نے کچھ کے نہ ہونے سے اتنی بڑی کائنات کو بنا کے رکھ دیا۔
دوسری بات یہ کہ تھرمو ڈائنامکس کے پہلے قانوں کے مطابق توانائی کو پیدا نہیں کیا جا سکتا یعنی یہ ہمیشہ سے ہے اور زمان یا وقت کے اثر سے آزاد ہے۔اس نے پوری کائنات کو تخلیق کیا یعنی مکان بھی اس نے بنایا لہذا یہ زمان و مکان یاٹائم اینڈ سپیس سے آزاد ہے۔
مادہ ایسی توانائ سے وجود میں لایا گیا جو کائنات میں ہر حگہ موجود،ہمیشہ سے موجود،سب سے بڑی طاقتور یہ سب خدا کی خصوصیات کا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے۔ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ کائنات عدم سے وجود میں لائ گئ۔پہلے سوا اس توانائ کے کچھ بھی نہیں تھا جو موجود،سب سے بڑی طاقتور،ہمیشہ سے آزاد یہ خدا کا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے۔
اگر کائنات عدم سے وجود میں آگئی ہے تو اس وہ انرجی کا کیا رول رہ گیا..... اگر اس انرجی نے مادہ پیدا کیا تو پھر کائنات عدم سے کیسے وجود میں آیا....
اس انرجی کا رول یہ ہے کہ اسی نے ہی یہ سب مادہ اور کائنات پیدا کی۔وہ نہ ہوتی تو کچھ نہ ہوتا۔اس انرجی نے ہی کائنات کو عدم سے پیدا کیا۔
آپ اس توانائ کا وجود نہیں ٹھکرا سکتے۔میں نے سائنسی دلائل دیے۔اس کا وجود ٹھکرانے کے لیے آپ کو سائنس کا انکار کرنا پڑے گا۔
ایک ساینسی تصور ہے جسے کوانٹم بیلنسنگ کہتے ہیں۔اب میں اس پہ آتا ہوں۔
روس میں ایک تجربہ ہوا۔اس کا بیان:
روس میں سائنسدانوں نے ایک ٹیسٹ ٹیوب میں خلا یا ویکیوم پیدا کیا سکشن اپریٹس سے۔اس میں انہوں نے دیکھا کہ توانائ رکھنے والے فوٹان وراثتی مادے یا ڈی این اے کے بننے کو کیسے متاثر کر سکتے ہیں۔اس میں انہوں نے دیکھا کہ انرجی فوٹان کو پہلے سے پتہ تھا کہ کونسے ڈی این اے مالیکیول کو کہاں ملانا ہے۔اس توانائ نے وراثتی مادے کو ڈئ این اے مالیکیول آنے سے پہلے خود آکر اس کے آنے کے بعد اس مالیکیول کو ترتیب دیا۔اب ڈئ این اے وراثتی مادہ ہے۔اگر یہ توانائ زندگی کی بنیاد یعنی وراثتی مادے کو ترتیب دے سکتی ہے جس سے پھر زندہ اشیاء اور پروٹین بنتی ہیں اور اس کو یہ بھی پتہ ہے کہ اس ڈی این اے کو ایسے بنانا ہے اور یہ وہاں پہلے آگئی تو یہ اس توانائ کے زندگی کے بنیادی اجزاء اور پہلے سے اشیاء کا علم یا علم الغیب رکھنے کا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے۔یہ بھی ثابت یوگیا کہ یہ توانائ کائناتی عوامل کا علم رکھتی یے اور ان کو انجام دینے کے لیے پہلے ہی آجاتی ہے اس،کے مادی ذرات کے آنے سے پہلے۔اب یہ عالم الغیوب ہونے کا ثبوت ہوگیا۔
اب اس کا مزید ثبوت:
ڈبل سلٹ کا تجربہ۔اس تجربے میں الیکٹران کو ایک ڈبل سلٹ سے گزارا گیا اور اس کے دوسری طرف ایک کیمرا رکھ دیا گیا جو ان کو شناخت کرتا۔جب کیمرا ان الیکٹران کو دیکھتا تو یہ ایک ذرے کی طرح تعامل کرتے اور جب نہ دیکھتا تو یہ ایک موج کی طرح۔یعنی کائنات کی ہر چیز دو خصوصیات رکھتی ہے ایک زراتی اور ایک ویو۔آگر خدا مادی یا زراتی طور پہ عمل کرے تو عرش پہ موجود اور اگر ایک ویو بطور عمل کرے تو پوری کائنات میں موجود۔ایک ہی وقت میں خدا کا عرش اور کائنات میں موجود ہونا ثابت ہو گیا۔یہ در حقیقت uncertainty principle کا دوسرا نقطہ ہے۔
19700 کے عشرے کے اوائل میں روجر ووگلسینگ نے ایک آلہ بنایا جسے اس نے ایس ٹی آئ یا self thinking interface کا نام دیا۔اب اس کی وضاحت:
اس میں اس نے الیکٹران اور ان کو متاثر کرنے والی توانائ استعمال کی۔اس نے دیکھا کہ یہ توانائ خود بخود کمپیوٹر پہ الفاظ ٹائپ کر سکتی تھی،اس کے خیالات پڑھ سکتی تھی۔وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔اسے یقین آگیا کہ ایک ایسی نامعلوم قوت کائنات میں موجود ہے جو پہلے سے سب اشیاء کا علم رکھتی یے یعنی عالم الغیوب ہے۔یہ دیکھ کے وہ خدا کی شان میں پکار اٹھا
We can thank God for the coming mental paradigm shift, even the bloodshed it brings to get things restarted correctly with a Self thinking interfacig device directly to God!"
اب ایک سائنسدان خدا کی یہ نشانی دیکھ کے خدا پہ ایمان لا چکا ہے۔ہم کیوں نہ لائیں۔
اب میں چاروں صفات خداوندی کا سائنسی ثبوت پیش کر چکا ہوں۔اب آگے چلتے ہیں۔
اگر زمین جتنی جسامت کی ہے اس سے چھوٹی ہوتی تو اس کا کرہ ہوای یا ایٹما سفیر نہ ہوتا اگر یہ اس سے بڑی ہوتی تو اس کی فضا میں مشتری کی طرح ہائیڈروجن زیادہ ہوجاتی۔دونوں صورتوں میں اس پہ زندگی کا وجود ناممکن ہو جاتا۔
زمین جتنے فاصلے پی سورج سے ہے اگر یہ فاصلہ ایک فریکشن بھی کم ہوتا تو زندگی جل جاتی اور اگر زیادہ ہوتا تو یہ جم جاتی۔
اگر زمین اپنے محور کے گرد گردش نہ کرتی تو زمیں کے کچھ حصے ٹھنڈے باقی گرم ہوجاتے۔
کیا یہ سب ایک اتفاق تھا؟جب کہ سائنسداں خود اعتراف کر چکے ہیں کہ کائنات میں ایک ایسی ذہانت والی ہستی موجود ہے جس نے یہ سب کیا۔اس ہستی کو وہ عالمگیر ذہانت یا universal intelligence کہتے ہیں۔
پانی کے جمنے اور ابلنے کے درجہ حرارت میں سو کا فرق ہے۔اگر یہ فرق نہ ہوتا تو درجہ حرارت کی تبدیلیوں سے زندہ خلیوں یا سیلز میں موجود مالیکول اس کے جمنے یا ابلنے سے تباہ ہوجاتے اور زندگی ناممکن ہوجاتی۔
اگر پانی میں ہر چیز حل کرنے کی صلاحیت نہ ہوتی تو یہ خون میں زندگی کے لیے لازمی غذائی اجزا نہ پہنچا پاتا پورے جسم کو
پانی کا ایک سرفیس ٹینشن نہ ہوتا تو پانی کشش ثقل یا گریویٹی کے خلاف اوپر کو جا کر پودے۔ کو پانی فراہم نہ کر سکتا
اگر پانی اوپر سے نیچے کی بجائے نیچے سے اوپر کو جمتا تو اس میں موجود آبی حیات مر جاتی۔کیا یہ سب اتفاقی ہے؟خود بخود ہو گیا؟
اگر زمین پہ آبی بخارات اور بارشوں کا نظام نہ ہوتا تو زمیں کا پانی کب کا ناخالص ہو چکا ہوتا۔کیا یہ سب ایک اتفاق تھا؟
انسانی ذہن ایک وقت میں دس لاکھ سے زیادہ پیغامات پراسیس کر سکتا ہے۔کیا ایسی طاقتور مشین کوئ بنا سکتا ہے؟
آج تک سائنس کو ٹھیک سے سمجھ نہیں آیا کہ یہ سب حیران کن حد تک ہوگیا۔اس لیے اب وہ عالمگیر ذہانت کا لفظ استعمال کرتے ہیں جسے ہم خدا کہتے ہیں۔
فلکیات کے مایر فزکس روبرٹ جیسٹرو لکھتے ہیں
The Universe flashed into being, and we cannot find out what caused that to happen۔
فزکس میں نوبل پرائز حاصل کرنے والے سٹیون ونبرگ کیا کہتے ہیں۔یہ پڑھیں
the universe was about a hundred thousands million degrees Centigrade...and the universe was filled with light.
وہ کہ رہے ہیں کہ پیدائش کے وقت کائنات میں روشنی تھی۔اب حدیث میں کیا ہے کہ اللٰہ ایک چھپاہوا خزانہ تھا اور قرآن کیا کہتا ہے کہ وہ زمین آسمان کا نور ہے۔ساینس بھی کہتی ہے کہ نور یعنی روشنی ہے۔اور کیا ثبوت چاہئے۔
کائنات کچھ مقرر شدہ سائنسی اصولوں پہ چل رہی ہے اور یہ بات سائنس مان چکی ہے۔کشش ثقل،قوانیں حرکت،تھرمو ڈائنامکس کے قوانین،مادے اور توانائ کے قوانین پوری کائنات میں یکساں ہیں جس کا مطلب اس کائنات کا خالق ایک ہے۔
آخر کائنات کو کیا ضرورت ہے کی کچھ لازمی اصول پہ چلے۔پھر یہ کس کے قانون اور اصول کی پابندی کر رہی ہے۔اس پہ سائنسدان خود حیران ہیں۔کوانٹم الیکٹرو ڈائنامکس میں نوبل پرائز حاصل کرنے والے رچرڈ فن مین کے مطابق
Why nature is mathematical is a mystery...The fact that there are rules at all is a kind of miracle
یہ حیران کن حقائق کس ہستی کا ثبوت ہیں؟
زندگی کا وراثتی مادہ یا ڈی این اے تین بلین یعنی تین ارب حروف پہ مشتمل ایک طرح کا instruction manual ہے جو سیل یا خلیہ کو بتاتا ہے کہ کس طرح اپنے افعال انجام دینے ہیں۔اگر صرف ایک سیل کا ڈی این اے نکال کے لائن میں رکھا جائے تو یہ زمیں سے سیارہ مشتری کے درمیان موجود فاصلے سے بھی ساٹھ گنا زیادہ لمبائی تک پھیل جائے۔کیا یہ خود بخود بن گیا؟
آپ کو پتہ ہے خدا کی ذات کے یہ سائنسی حقائق دیکھ کے ملحد سائنسدان میریلنڈ ایڈمسن خدا پہ ایمان لے آیا ہے۔
سوشلسٹ اور فلاسفر مصنف میلکوم میگرائیڈ نے خدا کی ذات کے بارے میں یہ اعتراف کیا
I had a notion that somehow, besides questing, I was being pursued.
سی ایس لیوس نے خدا کی ذات کا اعتراف کرنے کے بعد یہ کہا
night after night, feeling whenever my mind lifted even for a second from my work, the steady, unrelenting approach of Him whom I so earnestly desired not to meet. I gave in, and admitted that God was God, and knelt and prayed: perhaps, that night, the most dejected and reluctant convert in all of England۔
آپ کو پتہ ہے کہ سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ ہمارے جسم کے تمام خلیے یادداشت کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اور قرآن نے کیا کہا کہ تمہارا جسم تمہارے گناہوں کی گواہی دے گا۔سائنس نے بھی ثابت کردیا کہ ایسا ہوسکتا ہے کیونکہ خلیے اچھے برے تجربات یاد رکھتے ہیں۔
آپ کو پتہ ہے کہ سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ خدا پہ ایمان انسان کی فطرت میں موجود ہے۔اس کا سائنسی ثبوت:
یو ایس نیشنل کینسر انسٹٹیوٹ کے ڈین ہیمر جو کہ جین سٹرکچر اینڈ ریگولیشن یونٹ کے وہاں انچارج ہیں انہوں نے vmat2 کے نام سے ایک جین دریافت کیا ہے جو انسان میں خدا پہ ایمان اور روحانی خیالات پیدا کرتا ہے۔
اس جین کو گاڈ جین کا نام دیا گیا ہے۔اس پہ انہوں نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے The God Gene,how faith is hardwired into our genes۔
یہ جین انسانی دماغ میں مونو امائن پیغاماتی مادوں یا نیورو ٹرانسمیٹرز کو کنٹرول کرتا ہے۔یہ تحقیق انہوں نے ایک ہزار انسانوں پہ تجربات کر کے کی۔اس تحقیق کی حمایت Lindon Eves اور نکولس مارٹن کی Twin studies اور ماہر نفسیات رابرٹ کلوننگر کی تحقیقات نے بھی کی ہے۔
اس پہ اعتراض کرنے والے ملحد سائنسدان اس کو مسترد کرنے کی ایک بھی عملی تحقیق پیش نہیں کر سکے۔جب کہ گاڈ جین کی تحقیق ایک ہزار انسانوں پہ کی گئ ہے۔
اس پہ اعتراض کرنے والا ملحد سائنسدان پی زیڈ مائرز بھی لکھتا ہے
فزکس میں نوبل پرائز حاصل کرنے والے سٹیون ونبرگ کیا کہتے ہیں۔یہ پڑھیں
the universe was about a hundred thousands million degrees Centigrade...and the universe was filled with light.
وہ کہ رہے ہیں کہ پیدائش کے وقت کائنات میں روشنی تھی۔اب حدیث میں کیا ہے کہ اللٰہ ایک چھپاہوا خزانہ تھا اور قرآن کیا کہتا ہے کہ وہ زمین آسمان کا نور ہے۔ساینس بھی کہتی ہے کہ نور یعنی روشنی ہے۔اور کیا ثبوت چاہئے۔
کائنات کچھ مقرر شدہ سائنسی اصولوں پہ چل رہی ہے اور یہ بات سائنس مان چکی ہے۔کشش ثقل،قوانیں حرکت،تھرمو ڈائنامکس کے قوانین،مادے اور توانائ کے قوانین پوری کائنات میں یکساں ہیں جس کا مطلب اس کائنات کا خالق ایک ہے۔
آخر کائنات کو کیا ضرورت ہے کی کچھ لازمی اصول پہ چلے۔پھر یہ کس کے قانون اور اصول کی پابندی کر رہی ہے۔اس پہ سائنسدان خود حیران ہیں۔کوانٹم الیکٹرو ڈائنامکس میں نوبل پرائز حاصل کرنے والے رچرڈ فن مین کے مطابق
Why nature is mathematical is a mystery...The fact that there are rules at all is a kind of miracle
یہ حیران کن حقائق کس ہستی کا ثبوت ہیں؟
زندگی کا وراثتی مادہ یا ڈی این اے تین بلین یعنی تین ارب حروف پہ مشتمل ایک طرح کا instruction manual ہے جو سیل یا خلیہ کو بتاتا ہے کہ کس طرح اپنے افعال انجام دینے ہیں۔اگر صرف ایک سیل کا ڈی این اے نکال کے لائن میں رکھا جائے تو یہ زمیں سے سیارہ مشتری کے درمیان موجود فاصلے سے بھی ساٹھ گنا زیادہ لمبائی تک پھیل جائے۔کیا یہ خود بخود بن گیا؟
آپ کو پتہ ہے خدا کی ذات کے یہ سائنسی حقائق دیکھ کے ملحد سائنسدان میریلنڈ ایڈمسن خدا پہ ایمان لے آیا ہے۔
سوشلسٹ اور فلاسفر مصنف میلکوم میگرائیڈ نے خدا کی ذات کے بارے میں یہ اعتراف کیا
I had a notion that somehow, besides questing, I was being pursued.
سی ایس لیوس نے خدا کی ذات کا اعتراف کرنے کے بعد یہ کہا
night after night, feeling whenever my mind lifted even for a second from my work, the steady, unrelenting approach of Him whom I so earnestly desired not to meet. I gave in, and admitted that God was God, and knelt and prayed: perhaps, that night, the most dejected and reluctant convert in all of England۔
آپ کو پتہ ہے کہ سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ ہمارے جسم کے تمام خلیے یادداشت کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اور قرآن نے کیا کہا کہ تمہارا جسم تمہارے گناہوں کی گواہی دے گا۔سائنس نے بھی ثابت کردیا کہ ایسا ہوسکتا ہے کیونکہ خلیے اچھے برے تجربات یاد رکھتے ہیں۔
آپ کو پتہ ہے کہ سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ خدا پہ ایمان انسان کی فطرت میں موجود ہے۔اس کا سائنسی ثبوت:
یو ایس نیشنل کینسر انسٹٹیوٹ کے ڈین ہیمر جو کہ جین سٹرکچر اینڈ ریگولیشن یونٹ کے وہاں انچارج ہیں انہوں نے vmat2 کے نام سے ایک جین دریافت کیا ہے جو انسان میں خدا پہ ایمان اور روحانی خیالات پیدا کرتا ہے۔
اس جین کو گاڈ جین کا نام دیا گیا ہے۔اس پہ انہوں نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے The God Gene,how faith is hardwired into our genes۔
یہ جین انسانی دماغ میں مونو امائن پیغاماتی مادوں یا نیورو ٹرانسمیٹرز کو کنٹرول کرتا ہے۔یہ تحقیق انہوں نے ایک ہزار انسانوں پہ تجربات کر کے کی۔اس تحقیق کی حمایت Lindon Eves اور نکولس مارٹن کی Twin studies اور ماہر نفسیات رابرٹ کلوننگر کی تحقیقات نے بھی کی ہے۔
اس پہ اعتراض کرنے والے ملحد سائنسدان اس کو مسترد کرنے کی ایک بھی عملی تحقیق پیش نہیں کر سکے۔جب کہ گاڈ جین کی تحقیق ایک ہزار انسانوں پہ کی گئ ہے۔
اس پہ اعتراض کرنے والا ملحد سائنسدان پی زیڈ مائرز بھی لکھتا ہے
It's a pump. A teeny-tiny pump responsible for packaging a neurotransmitter for export during brain activity. Yes, it's important, and it may even be active and necessary during higher order processing, like religious thought. But one thing it isn't is a 'god gene
اس میں وہ مان رہا ہے کہ یہ جین مذہبی تصورات پیدا کرسکتا ہے لیکن اس کو بغیر کسی سائنسی تحقیق کے گاڈ جین ماننے سے انکاری ہے کیونکہ ضد کا کوئ علاج نہیں۔
Tim Spector کی 9 ستمبر 20133 کی تحقیق پڑھ لیں۔وہ کہتا ہے انسانی مذہبی تصورات جین میں ہوسکتے ہیں اور اس پہ جو تحقیق ہے اسے Twin Studies کا نام دیا گیا ہے۔
ٹم سپیکٹر لکھتا ہے
science has shown us clearly that one level of belief in God and overall spirituality is shaped not only by a mix of family environment and upbringing--which is not surprising--but also by our genes.
وہ مان رہا ہے کہ مذہب اور خدا کا تصور انسان کی فطرت یعنی اس کے جین میں شامل ہے۔
یہ تحقیق امریکہ،نیدرلینڈ،اور برطانیہ میں ہزاروں انسانوں پہ کی گئ۔اس نے ثابت کیا کہ خدا پہ ایمان کا 40-50% حصہ انسان کی فطرت میں داخل ہے۔
ٹم سپیکٹر مزید لکھتا ہے
اس میں وہ مان رہا ہے کہ یہ جین مذہبی تصورات پیدا کرسکتا ہے لیکن اس کو بغیر کسی سائنسی تحقیق کے گاڈ جین ماننے سے انکاری ہے کیونکہ ضد کا کوئ علاج نہیں۔
Tim Spector کی 9 ستمبر 20133 کی تحقیق پڑھ لیں۔وہ کہتا ہے انسانی مذہبی تصورات جین میں ہوسکتے ہیں اور اس پہ جو تحقیق ہے اسے Twin Studies کا نام دیا گیا ہے۔
ٹم سپیکٹر لکھتا ہے
science has shown us clearly that one level of belief in God and overall spirituality is shaped not only by a mix of family environment and upbringing--which is not surprising--but also by our genes.
وہ مان رہا ہے کہ مذہب اور خدا کا تصور انسان کی فطرت یعنی اس کے جین میں شامل ہے۔
یہ تحقیق امریکہ،نیدرلینڈ،اور برطانیہ میں ہزاروں انسانوں پہ کی گئ۔اس نے ثابت کیا کہ خدا پہ ایمان کا 40-50% حصہ انسان کی فطرت میں داخل ہے۔
ٹم سپیکٹر مزید لکھتا ہے
Skeptics among you might say that the twin studies showing similarity for belief are just reflecting some cultural or family influence that wasn't properly corrected for in the study design. However in one study of adopted twins, the researchers looked at religious belief in a number of adopted twins raised apart. They found exactly the same result--greater similarity in identical twin pairs, even if raised apart. The conclusion is unavoidable: faith is definitely influenced by genes.
اس تحقیق میں ایک سائنسدان نک مارٹن خدا کے وجود کا منکر تھا لیکن تحقیقات نے ثابت کر دیا کہ خدا پہ ایمان انسان کی فطرت میں شامل ہے۔
صرف یہی نہیں۔نیورو سائنسدان اینڈریو نیوبرگ کی 2001 کی تحقیق پڑھیں۔وہ لکھتا ہے
““If it’s a very emotional experience, then an emotional part of the brain is involved. If it’s an experience where they lose the sense of self, then areas of the brain that deal with the sense of self are involved.
یہ خیالات اس نے اپنی کتاب Why God would not go away,brain science and biology of belief میں بیان کیے۔
الپر اور نیوبرگ نے کہا ہے کہ یہ جین انسانی ذہن کا تناؤ بھی کم کرتے ہیں۔سائنسی تحقیقات ثابت کر چکی ہیں کہ خدا کے ماننے والوں میں نفسیاتی امراض کی شرح کم اور ملحدین میں زیادہ ہوتی ہے۔
میں ایک بار پھر خدا کی ذات کے کائناتی ثبوتوں پہ آنا چاہوں گا۔
فزکس کے مطابق پوری کائنات میں انرجی کاایک میدان موجود ہے جسے وہ Higgs fieldd کہتے ہیں۔خدا کے ہر جگہ موجود ہونے کا ایک اور سائنسی ثبوت۔
ستاروں کے گول ہونے کو ان کی گریویٹی یا کشش ثقل وضاحت نہیں کر سکتی۔پھر کس نے ان کو گول بنایا۔
گیس لاء کے مطابق گیس کا پھیلاؤ کا دباؤ گریویٹی سے زیادہ ہوتا ہے۔اس طرح ستاروں کی ہائیڈروجن گیس منتشر ہوجاتی۔لیکن پھر بھی وہ گول ہیں۔کس نے ان کو گول بنایا۔
اگر کائنات ایک دھماکے سے بنی تو اس کی کوئ ترتیب نہ ہوتی لیکن یہ ایک خاص ترتیب میں کیوں ہے۔دھماکے بےترتیبی پھیلاتے ہیں ترتیب نہیں۔پھر کائنات میں اتنا ربط اور نظم کیسے آیا۔
خدا کی ذات کا ثبوت اور اس کے سائنسی دلائل
(ویکیوم انرجی اور کوانٹم فلکچویشن خدا کی ذات کے وجود کے ثبوت کے طور پر)
خدا کو اس کی نشانیوں اور طاقت سے پہچانا جا سکتا یے جو پوری کائنات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔خدا کا نہیں دیکھا جا سکتا اور نہ ہی ہر موجود چیز کے وجود کے لیے اس کا نظر آنا لازمی ہے،لیکن خدا کی ذات کا اثر کائنات کے ایک ایک ذرے پر دیکھا جا سکتا ہے اور سائنسی دلائل اس کی تصدیق کرتے ہیں۔
ہم مسلمانوں کو خدا کی ذات پہ یقین کے لیے کسی سائنس کی ضرورت نہیں لیکن یہ دلائل اہل ایمان کے۔ ایمان میں اضافے اور ان ملحدین کے سوالات کے جوابات کے لیے لازمی ہیں جو خدا کی ذات پہ ایمان نہیں رکھتے۔
ویکیوم انرجی ایک ایسی توانائ ہے جو پوری کائنات کے خلا میں موجود ہے۔یہ بات ثابت کرتی ہے کہ کوئ ایک ایسی طاقت کائنات میں موجود ہے جو ہر جگہ موجود ہے،ملحدین کہتے تھے ک کوئ چیز ایسی نہیں جو کائنات میں ہر جگہ موجود ہو۔آج سائنس نے ثابت کر دیاکہ ایک ایسی توانائ موجود ہے جو پوری کائنات میں ہے خدا کے ہر جگہ موجود ہونے کا ایک ثبوت اور اس کے وجود کی ایک علامت۔
زیرو پوائنٹ انرجی یاگراؤنڈ سٹیٹ انرجی کسی کوانٹم مکینیکل سسٹم کی توانائ کی کم ترین سطح ہے۔یہ بذات خود ویکیوم انرجی کی ایک شکل ہے جس کا تعلق ایٹم،الیکٹران،ایٹم کے سب ذرات اور کوانٹم ویکیوم سے ہے۔یعنی ایٹم بذات خود اس توانائ سے متاثر ہوتا ہے۔چونکہ ایٹم پوری کائنات اور ہر جاندار و انسان میں موجود ہیں،لہذا یہ توانائ جو ہر جگہ۔ ایٹم کو متاثر کرتی ہے،یہ بھی ہر جگہ موجود ہے اور اس کا اثر پوری کائنات پہ ہے کیونکہ پوری کائنات میں الیکٹران موجود ہیں۔اس طرح ثابت ہوگیا کہ یہ توانائ نہ صرف کائنات میں ہر جگہ موجود ہے بلکہ کائنات کے ایک ایک ذرے پر اپنا اثر ڈال رہی ہے۔پوری کائنات کے خدا کے کنٹرول میں اور اس کے اثر میں ہونے کا ثبوت۔اس بات نے ملحدین کو جھوٹا کر دیا جو کہتے تھے کہ ایسا خدا کہاں ہے جو اڑتی چڑیا کے پر گنتا رہتا ہے۔اس بات نے ثابت کر دیاکہ اڑتی چڑیا کے پر گننا تو چھوٹی سی بات ہے،کائنات کا ایک ایک ذرہ اس خدا کی طاقت کے اثر میں ہے۔پہلے ملحدین کہتے تھے کہ ایسی کوئ چیز موجود نہیں جو بیک وقت پوری کائنات کو کنٹرول کر سکے۔اب سائنس نے ثابت کر دیا کہ ایسی چیز موجود ہے۔
دوسری بات۔۔۔یہ توانائ کوانٹم مکینکس کے Uncertainty Principle کے نتیجے کے طور پر الیکٹران کو ایک بے قاعدہ حرکت یا Random Motion میں رکھتی ہے جس سے ایک ہی وقت میں الیکٹران کے مقام اور ولاسٹی کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ الیکٹران کی یہ بے قاعدہ حرکت زیرو پوائنٹ انرجی سے متاثر ہوتی ہے جو بذات خود ویکیوم انرجی کی ایک شکل ہے اور اس طرح یہ توانائ تمام الیکٹران کو پوری کائنات میں حرکت میں رکھتی ہے اور ان کو تحریک یا Random Impulses دیتی ہے۔کم سطح پر الیکٹران کو متاثر کر کے در حقیقت یہ توانائ پوری کائنات کو حرکت میں رکھتی ہے کیونکہ الیکٹران پوری کائنات میں موجود ہیں اور سب جاندار،ستارے،سیارے،کہکشائیں،یہاں تک کہ خلا الیکٹران رکھتے ہیں۔اس طرح یہ طاقت پوری کائنات کو نہ صرف کنٹرول کرتی ہے بلکہ اس کو ہر وقت حرکت میں رکھتی ہے۔ثابت ہوگیا کہ ایک ایسی قوت کائنات میں موجود ہے جو پوری کائنات کے مادے کو چلا رہی ہے۔خدا کے وجود کا ایک اور ثبوت اور اس کی قدرت کی ایک اور نشانی۔۔۔ملحدین نے اس کا بھی انکار کیا تھا کہ ایسی کوئ اور نہیں جو پوری کائنات کو چلا سکے اور کائنات خود بخود چل رہی ہے۔اب سائنس نے اس کائنات کو چلا نے والی قوت کا وجود سچ ثابت کر دیا۔
مزید برآں تمام کوانٹم مکینیکل سسٹم اپنی موج اور ذرے کی مشترکہ خصوصیت Wave-Particle Nature کی وجہ سے تبدیلی کے عمل سے گزرتے ہیں۔وارن ہیزنبرگ کے Uncertainty Principle کے مطابق یہ تبدیلی یا فلکچویشن لانے والی توانائ اپنی مخفی سطح سے زیادہ ہونی چاہیے جس کا مطلب کیا ہے کہ یہ توانائ اپنی سطح بڑھا کر پوری کائنات کے الیکٹران کو حرکت میں رکھتی ہے اور اس طرح پوری کائنات کو کنٹرول کرتی ہے کیونکہ الیکٹران پوری کائنات میں موجود ہیں۔خدا کے پوری کائنات کو کنٹرول کرنے کی ایک اور نشانی۔۔۔۔
آئن سٹائن کی E=mc22 کی مساوات کے مطابق کائنات کا کوئ بھی حصہ جو توانائ رکھتا ہے،اسے بطور ایک کمیت یا ماس تصور کیا جاسکتا ہے جو مادی ذرات پیدا کرتی ہے۔اس تصور کے مطابق یہ توانائ پوری کائنات میں موجود ہو کر مادی ذرات پیدا کرتی ہے جس سے ایٹم مالیکیول،سیارے،ستارے،کہکشائیں اور پوری کائنات بنتی ہے۔اس طرح اس توانائ نے پوری کائنات کا مادہ تخلیق کیا۔ثابت ہو گیا کہ ایک ایسی قوت کائنات میں موجود ہے جس نے اس کائنات کو تخلیق کیا۔خدا کے وجود اور اس کے یہ کائنات پیدا کرنے کا ایک اور ثبوت۔ملحدین نے اس کا بھی انکار کیا تھا کہ کوئ قوت ایسی نہیں ہو سکتی جو اکیلی پوری کائنات تخلیق کر کے دکھائے۔
ایک اور بات۔۔۔۔یہ توانائ کائنات میں ہر جگہ موجود ہے،اور آئن سٹائن کی مساوات کے مطابق توانائ مادے میں تبدیل ہو سکتی ہے،لہذا یہ توانائ ایک قوت اور وجود کے طور پر عرش پر رہے یا اپنی علامت یعنی توانائ بن کر پوری کائنات میں۔دونوں کام بیک وقت کر سکتی ہے۔اس طرح خدا کا بیک وقت عرش پر موجود ہونا بھی ثابت اور پوری کائنات میں موجود ہونا بھی ثابت۔۔۔۔۔
کوانٹم فیلڈ تھیوری یا کیو ایف ٹی کے مطابق کائنات کا ہر نقطہ ایک کوانٹم کے ہم آہنگ ارتعاش پذیر یا Quantum Hormonic Oscillator کے طور پر طرز عمل ظاہر کرتا ہے۔اس کے مطابق پوری کائنات مادی میدانوں یا Matter Fieldsسے بنی ہے جس کے کوانٹم فرمیونز۔۔۔۔۔Fermions....یعنی الیکٹران اور کوارک اور قوت کے میدان۔۔۔Force Fields....ہیں جس کے کے کوانٹا بوزانز۔۔۔Bosons....یعنی فوٹان اور گلوآنز۔۔۔۔Gluons...ہیں۔یہ سب زیرو پوائنٹ انرجی رکھتے ہیں جو کہ زیرو پوائنٹ انرجی کی ایک شکل ہے۔اس طرح ایک اور ثبوت کہ کائنات کے بنیادی ذرات یعنی الیکٹران،کوارک،فوٹان اس توانائ کے زیر اثر۔چونکہ یہ ذرات پوری کائنات میں موجود ہیں اور کائنات ان ذرات سے بنی ہے۔لہذا ان زرات کو کنٹرول کرنے والی قوت بھی ہرجگہ موجود اور پوری کائنات اس کے زیر اثر۔خدا کے وجود کی ایک اور نشانی۔۔۔چونکہ یہ ان ذرات کو کنٹرول کر رہی ہے،لہذا اس بات کا ثبوت کہ پورا مادہ اور کائنات ہر وقت اس کے زیر اثر اور وہ خود کسی کے زیر اثر نہیں۔اس طرح نہ صرف اس نے اس کائنات کو تخلیق کیا بلکہ اسے ہر وقت کنٹرول بھی کر رہی ہے۔یعنی مادہ اس کے زیر اثر اور خود مادے کے اثر سے آزاد۔اور اس کے ساتھ یہ بھی ثابت کہ یہ قوت کائنات میں ہر وقت اپنا اثر ڈال رہی ہے۔
ماہرین فزکس جان ویلر اور رچرڈ فنمین۔۔۔Feynman...نے اس توانائ کی پیمائش کرنے کی کوشش کی اور نتیجہ اخذ کیا کہ یہ توانائ ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم کی نیوکلیئر انرجی سے بھی اتنی زیاددہ کی اس کی ایک چائے کے کوزے یا کپ کے برابر مقدار پوری دنیا کے سمندروں کو ابال دے۔قرآن کی آیت سچ ثابت ہوگئ کہ جس قیامت کے دن سمندروں کو آگ لگا دی جائے گی۔سائنس نے ثابت کردیا کہ یہ توانائ ایسا کر سکتی ہے۔خدا کی حیران کن اور عظیم طاقت کی ایک اور نشانی۔۔۔۔
وارن ہیزنبرگ کے Uncertainty Principlee کے مطابق الیکٹرون کا مقام و ولاسٹی ایک وقت میں متعین کرنا مشکل یعنی یہ الیکٹران ایک نامعلوم توانائ سے متاثر ہوتے ہیں جو کہ ویکیوم انرجی ہے اور پوری کائنات میں موجود۔خدا کی طاقت کی ایک اور نشانی۔۔۔
کوانٹم طبیعیات یا کوانٹم فزکس کے مطابق تمام مادی ذرات کو کوانٹم ویکیوم کی متحرک حالت۔۔۔Excited State....کے طور پر کیا جا سکتا ہے۔اس کے مطابق مادے کی تمام خصوصیات محض ویکیوم فلکچویشن ہیں جو زیرو پوائنٹ فیلڈ اور اس طرح زیرو پوائنٹ انرجی سے تعامل کے نتیجہ میں سامنے آتی ہیں اور خود زیرو پوائنٹ انرجی ویکیوم انرجی کی ایک شکل ہے۔اس طرح یہ انرجی زیرو پوائنٹ انرجی کی صورت میں مادے کی سب خصوصیات کنٹرول کرتی ہے۔اس طرح پوری کائنات محض اس توانائ کی ویکیوم فلکچویشن ہے جو کہ ہر جگہ موجود ہے،اور کچھ نہیں۔خدا کے پوری کائنات کے مالک ہونے اور کائنات کے درحقیقت اس خدا کا ایک عکس ہونے کی ایک اور نشانی۔۔
اس ویکیوم انرجی کا طبیعیاتی علم کائنات۔۔۔۔۔Physical Cosmologyy....سے بھی گہرا تعلق ہے۔طبیعیاتی علم کائنات کی ساخت اور حرکیات کا علم ہے جس کا تعلق کائنات کی ابتدا،اس کی ساخت اور انجام سے ہے۔لہذا کائناتی علم طبیعیات کے مطابق اس توانائ کا کائنات کی ابتداء و تخلیق سے گہرا تعلق ہے۔خدا کی طرف سے کائنات کی تخلیق کی ایک اور نشانی۔
تاریک توانائ۔۔۔۔Dark Energyy ویکیوم انرجی کی ایک شکل جو پوری کائنات میں موجود ہے اور جو حقیقی ذرات۔۔۔۔Virtual Particles....کی توانائ ہے۔یہ توانائ بھی ویکیوم انرجی ہے جس سے یہ ذرات بنتے ہیں۔اس طرح ویکیوم انرجی زیرو پوائنٹ انرجی اور ڈارک انرجی کی صورت میں پوری کائنات میں موجود۔خدا کی طاقت کی ایک اور نشانی۔۔۔
ابتدائی کائنات ایک ٹوٹتا ہوا ثانیہ۔۔۔۔Split Secondd... تھی جو اتنی گرم تھی کہ اس کے ذرات کی توانائ آج تک زمیں کے پارٹیکل ایکسلریٹر ست زیادہ تھی۔ان ذرات کا تعلق ویکیوم انرجی سے تھا،یعنی کائنات کی ابتداء ایک توانائی سے ہوئ جو ہر جگہ موجود۔۔خدا کی ذات کی طرف سے کائنات کی تخلیق کی ایک اور نشانی۔۔۔
ان ذرات یعنی پروٹان،الیکٹران،نیوٹران سے نیوکلیس اور پھر ایٹم ،پھر پوری کائنات کے ستاروں کا ایندھن یعنی ہائیڈروجن' پھر ہیلیم پھر کاربن اور پھر پوری کائنات بنی جس کی ابتداء ایک توانائ تھی یعنی یہ توانائ پہلے تھی،مادہ بعد میں بنا۔
ویکیوم انرجی ریاضیاتی طور پر لامحدود۔۔۔۔Infinite...ہے جس کی بنیاد اس تصور پر ہے کہ ہم توانائ کی صرف ایک مفروضے کی بنیاد پت پیمائش کرسکتے ہیں،جو کہ تب بھی درست نہیں جب ہم بالواسطہ کائناتی مستقل۔۔۔۔Cosmological constant...کے ذریعے سے بھی اس کو مشاہدہ کرلیں۔یعنی یہ انتہائ لامحدود ہے۔خدا کی ذات کے لامحدود ہونے کی ایک اور نشانی۔۔۔
تاریک توانائ یا ڈارک انرجی اور تاریک مادہ یا ڈارک میٹر کی نسبت کو کائناتی مستقل۔۔۔Cosmological constant....کہا جاتا ہے جو کہ کائنات کے ویکیوم کی انرجی کی کثافت۔۔۔۔Energy Density... ہے۔جو کہ کائنات میں ہر جگہ موجود۔۔۔یہ ویکیوم انرجی کائناتی مستقل۔۔۔۔Cosmological constant...بناتی ہے جو کہ کائنات کے پھیلاؤ کو متاثر کرتا ہے۔اس طرح یہ توانائ کائنات کے پھیلاؤ کی بھی کنٹرول کررہی ہے۔خدا کی طرف سے کائنات کو پہلے پیدا کرنے اور پھر وسعت دینے کی ایک اور نشانی۔۔۔
ویکیوم انرجی کی سطح میں عارضی تبدیلی کو کوانٹم فلکچویشن کہتے ہیں جو کہ کائنات کی ابتداء میں اہم ہو سکتے ہیں۔اس تبدیلی سے حقیقی ذرات۔۔۔۔Virtual Particles....بنتے ہیں جو اس توانائ سے بنتے ہیں اور پھر دوبارہ اسی توانائ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔کائنات کے پھیلاؤ کے ماڈل۔۔۔۔Model Of Inflation....کے مطابق پھیلاؤ کے وقت جو ذرات موجود تھے وہ جسامت میں بڑے ہوئے اور تمام مادے کی بنیاد بنے۔اس طرح اس توانائ نے اپنے اندر سے مادے کو تخلیق کیا جو پوری کائنات کی بنیاد بنا۔اس توانائ نے نہ صرف کائنات کی تخلیق میں اہم کردر ادا کیا بلکہ اس کائنات کے پھیلاؤ میں بھی اہم کردار ادا کیا۔خدا کی طرف سے مادے اور پھر اس سے پوری کائنات کی تخلیق کی ایک اور نشانی۔۔۔
کیا خدا ایک توانائ ہے؟اس کے لیے ہمیں توانائ کی تعریف جاننی چاہیے۔توانائ کسی چیز کے کوئ کام کرنے کی صلاحیت کو کہتے ہیں۔ہمارا ایمان ہے کہ خدا سب کچھ کر سکتا ہے۔اس طرح وہ ایک طرح کی توانائ رکھتا ہے۔توانائ چونکہ نہ پیدا کی جا سکتی ہے اور نہ ہی فنا،اس طرح خدا کو نہ کسی نے پیدا کیا اور نہ کوئ اسے فنا کر سکتا ہے۔مطلب خدا ہمیشہ سے موجود ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا۔
زیرو پوائنٹ انرجی کے مفروضے کے مطابق کائنات کی مجموعی توانائی زیرو ہے۔مادے کی مثبت توانائ کو کشش ثقل یا گریویٹی کی منفی توانائ برابر کر دیتی ہے لیکن یہ کشش ثقل بذات خود مادے کی وجہ سے ہے جو کہ ویکیوم انرجی سے متاثر ہوتا ہے یعنی ایک ویکیوم انرجی کے زیر اثر مادے کی منفی کشش ثقل کی منفی توانائ اور دوسری طرف اس مادے کی اپنی مثبت توانائ،دونوں صورتوں میں مادہ اور اس کی توانائ ویکیوم انرجی کے زیر اثر ہے۔اور اس طرح کائنات ایک قیام پذیر حالت میں ہے۔اس توانائ نے اپنے آپ کو متوازن رکھ کر کائنات کو متوازن رکھا ہوا ہے۔اگر یہ مثبت مادے یا کشش ثقل یا گریویٹی کی منفی توانائ،کسی بھی صورت میں اپنا ایک پہلو بڑھا دے تو کائنات ٹکڑے ٹکڑے ہو جاۓ گی اور اس کا نام قیامت ہے۔اور قیامت تک اس توانائ کا ایک پہلو اس کے دوسرے پہلو کے خلاف نہیں جاتا،یعنی یہ توانائ خود اپنے خلاف نہیں جاتی اور اس کا یہ توازن ہے کہ جس سے کائنات قائم ہے۔جب بھی اس نے یہ متوازن ختم کیا،کائنات فنا ہو جائے گی۔یعنی سائنس نے بھی مان لیا کہ قیامت یعنی کائنات ک فنا ہوسکتی ہے۔اور دوسرے سائنسدان بھی کہ چکے ہیں کہ کائنات کی مجموعی توانائی زیرو نہیں ہے۔جس کا مطلب ہے کہ کائنات فنا ہوسکتی ہے کیونکہ اس کی توانائ غیر متوازن حالت میں ہے۔
اس طرح خدا کی قدرت کی نشانی اور خدا کی طاقت ویکیوم انرجی کی صورت میں پوری کائنات میں موجود ہے۔یہ سب دلائل ثابت کرتے ہیں کہ کائنات میں ایک ایسی قوت موجود ہے جو کائنات میں ہر جگہ موجود ہے،جس نے اس کائنات کو تخلیق کیا اور اب اس کائنات کو وسعت دے رہی ہے جیسا کہ سائنسدان کہتے ہیں کہ کائنات پھیل رہی ہے۔یہ سب دلائل ہر جگہ موجود،سب سے بڑے طاقتور خدا کا وجود ثابت کرتے ہیں جس کے قابو اور اثر میں کائنات کا ایک ایک ذرہ ہے اور اس کی دلیل ہم اوپر دے چکے ہیں۔یہ سب نشانیاں دیکھ کر ہم کیوں خدا کی ذات پہ ایمان نہ لائیں جیسا کہ قرآن میں ہے۔۔۔۔۔
انی وجھت وجھی للذی فطرالسموت والارض حنیفا وما انا من المشرکین
ترجمہ۔۔۔۔
میں نے اپنا منہ سب سے موڑ کر اس اللٰہ کی طرف کرلیا جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔
خدا کے وجود کے بارے میں جتنےنظریات پروان چڑھے ہیں،وہ انسانی سمجھ اور عقل کے دائرہ کارکے اندر ہیں- ان کو سمجھنے کے لیے مثالوں اورتمثیلوں کو استمعال کیا جاتا ہے جو حقیقت سےبہت دورہیں کیوںکہ؛ 'اس کی طرح کا کوئی نہیں' - لہٰذا انسان اس نتیجہ پر پہنچا کہ خدا کو اس کے 'کاموں اور نشانیوں' سے پہچانا جا سکتا ہے۔اور یہ نشانیاں ملحدین کے عقلی و منطقی دلائل کو جھوٹ ثابت کر کے سائنس دکھا رہی ہے۔
کائنات کو خدا نہیں کہا جاسکتا۔وہ اس لیے کہ خدا کسی کے کنٹرول میں نہیں ہوتا جب کہ یہاں ہم دیکھ رہے ہیں کہ پوری کائنات ایک نامعلوم قوت کے کنٹرول میں ہے لہذا یہ کائنات خدا نہیں بلکہ اسے کنٹرول کرنے والی وہ ہستی خدا ہے۔
خدا ایک ایسی ہستی ہے جو پوری کائنات کو کنٹرول کرتی ہو۔زمان و مکان کی پابندی سے آزاد ہو۔اگر ایک ایسی ہستی کا وجود سائنس ثابت کردے تو وہ خدا ہی ہوگا۔
جب ایک ہستی کی خصوصیات ثابت ہوجائیں تو اس کا وجود ثابت ہوجاتا ہے۔وجود کا بیان صفات سے ہوتا ہے اور صفات وجود سے الگ نہیں کی جا سکتی۔
خدااپنے وجود کے لیے کائنات کا محتاج نہیں۔جب یہ کائنات نہیں تھی وہ تب بھی تھا۔اب جب ہے تو وہ اس کائنات میں بھی موجود ہے اور اس سے اوپر بھی۔اور کائنات حتمی یا مطلق نہیں۔سائنس خود کہتی ہے۔لہذا خدا اگر کائنات سے باہر بھی ہو تو بھی کسی طرح اس کا انکار نہیں ہوتا جب کہ میں کہتا ہوں کہ وہ اس کائنات میں بھی ہے اور اس سے اوپر بھی۔
اسی طرح خدا نے کائنات تخلیق کی وہ اپنی تخلیق کی جگہ اپنی تخلیق کے ساتھ اس کے زرے ذرے میں موجود ہے اس کی تخلیق اس کے دائرہ کار میں ہے۔
خدا جب کائنات کے ذرے ذرے میں موجود ہے الیکٹران پروٹان نیوٹران کے اوپر بھی اس کی قوت کا کنٹرول ہے تو ظاہرہے کہ وہ کائنات میں ایسے ہی موجود ہے حیسے جسم میں خون۔جیسے جسم کے وجود سے اس میں موجود خون کی نفی نہیں ہوتی اس طرح کائنات کے وجود سے اس کے ذرے ذرے میں موجود خدا کی نفی نہیں ہوتی۔
خدا کیسے کائنات سے باہر ہوسکتا ہے۔خود سائنس کے مطابق وہ ویکیوم انرجی کی صورت میں ہر ذرے میں موجود ہے،intelligent energy کی صورت میں پوری کائنات کے مادے میں بھی موجود اور اس کائنات سے باہر بھی موجود اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جب کائنات یعنی زمان و مکان نہیں تھی تب بھی خدا تھا ۔ملحدین خدا کی ذات کے انکار کی جو منطق اور فلسفے پیش کر تے ہیں سائنس غلط ثابت کر چکی ہے۔اس لیے بہتر ہے کہ ملحدین فرسودہ فلسفے پیش نہ کریں بلکہ مستند اور تجرباتی علم یعنی سائنس سے ثابت کر کے دکھائیں کہ خدا نہیں ہے اور پھر ہم ثابت کریں گے کہ خدا ہے۔
ہم تخلیق ہیں اور کنٹرول میں ہیں۔جو تخلیق ہو کنٹرول میں ہو وہ خدا نہیں ہوتا۔بلکہ جو خدا میرے اور اس کائنات کے ہر ذرے کو اس کے اندر رہ کر کنٹرول کر رہا ہے وہ خدا ہے۔یہ وجود فنا ہے لیکن سائنس کے مطابق اس وجود مین موجود ویکیوم انرجی کو فنا نہیں۔جس کو بقا نہیں وہ خدا نہیں۔جس کنٹرول کرنے والی ہستی کو خدا ہے جو اندر بیٹھ کر کنٹرول کرتی ہے لیکن وجود کے ساتھ فنا نہیں ہوتی وہ خدا ہے۔خدا کی قدرت ویکیوم انرجی کی صورت میں پوری کائنات میں موجود اور ذہین توانائ یا intelligent energy کی صورت میں کائنات کے تمام مادے میں بھی موجود۔یعنی مادے کے ہر ذرے کے اندر ہر ذرے کے باہر یعنی ہر جگہ اس خدا کی قدرت ہے اور یہ سائنس ثابت کر چکی ہے۔مادہ توانائ میں تبدیل ہو سکتا ہے اور اس کے اندر ویکیوم انرجی کی وہ خدائ قدرت رکھی گئی ہے جس ویکیوم انرجی سے یہ سائنس کے مطابق پیدا کیا گیا۔لہذا مادہ خود خدا کی قدرت کس ایک اظہار اور اس کی تخلیق اور ذہین توانائ کی صورت میں اس کی قدرت کے زیر اثر۔خدا کی قدرت باہر ویکیوم انرجی کی صورت میں اور مادے کے اندر ذہین توانائ ج صورت میں موجود اور خود مادہ اسی ویکیوم انرجی کی پیداوار۔لہذا پوری کائنات مادے کے اندر مادے ست باہر اور خود مادہ خدا کی تخلیق اور خدا کی قدرت کے زیر اثر۔کسی صورت بھی خدا کے وجود کا انکار ممکن نہیں۔
خدا خالق ہے۔ باہر بھی اس کی قدرت موجود اور اس کائنات کے ہر intelligent energyy کی صورت میں موجود اور مادہ بذات خود اسی کی قدرت یعنی ویکیوم انرجی کی تخلیق۔اب مادے کے باہر مادے کے اندر ہر جگہ اس کی قدرت موجود اور پوری کائنات کا مادہ ذہین توانائ کی صورت میں اس کے زیر اثر۔یعنی مادہ یعنی مکان اس کی پیداوار اور اس کا محتاج اور زمان بھی کیونکہ زمان مکان کی وجہ سے ہے۔لہذا جس خدا نے یہ زمان و مکان تخلیق کیا وہ اس زمان و مکان کی پابندی سے آزاد ہے کیونکہ خالق کبھی مخلوق کا پابند نہیں ہوتا۔
لیکن ہر ذرہ یا کائنات خود خدا نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ خدا کی قدرت یعنی ویکیوم انرجی سے پیدا کیا گیا اور مخلوق کبھی خدا نہیں ہو سکتی اور یہ کائنات خود خدا نہیں کیونکہ یہ ویکیوم انرجی اور۔ ذہین توانائ کی صورت میں خدا کی قدرت کے زیر اثر جب کہ خالق کسی کے زیر اثر نہیں ہوتا۔
ویکیوم انرجی کائنات سے پہلے موجود تھی۔ہر جگہ موجود پوری کائنات کوانٹم فلکچویشن سے اس سے پیدا کی گئ اب یہ پوری کائنات کو کنٹرول کر رہی ہے لہذا یہ کائنات نہیں بلکہ خالق کی قدرت اور وجہ تخلیق ہے۔
خدا کی قدرت کی ایک دلیل کہ خدا کائنات سے بھی پہلے موجود تھاجس نے اپنی اس قدرت سے اس کائنات کو اس توانائ سے تخلیق کیا اور اب اسے اسی کے ذریعے کنٹرول کر رہا ہے۔یہ توانائ خدا کی قدرت، خالق اور مالک ہونے کا سائنسی ثبوت ہے۔یہ خدا کی قدرت اور صفت ہے اور صفت اپنے وجود کا بیان کرتی ہے جس وجود کی وہ صفت ہوتی ہے۔
ویکیوم انرجی بذات خود خدا کی قدرت کا ثبوت وہ کیسے خدا سے الگ کائنات خدا کی تخلیق اور اس کائنات کے ہر ذرے میں ویکیوم انرجی اور ذہین توانائ موجود پھر کیسے خدا کی قدرت وہاں موجود نہ ہوئ جہاں یہ دونوں ہیں۔
اور ویکیوم انرجی ایک خاصیت ہے یعنی خدا کی قدرت جب کہ خدا ایک اسم یا وجود ہے جس کی یہ قدرت ہے اور صفت وجود نہیں ہوتی بلکہ وجود کی خاصیت ہوتی ہے۔
اگر خدا کی قدرت ویکیوم انرجی کی صورت میں پوری کائنات میں موجود ہے تو یہ اسی بات کا ثبوت ہے کہ وہاں خدا موجود ہے۔
ہر چیز کا بیان اس کی نفی سے ہوتا ہے اور خدا کا بیان اس کے غیر کی نفی سے ہوتا ہے کیوں کہ خدا ہے ہی وہی جس سے بڑھ کر کوئ نہیں۔جس سے بڑھ کر کوئ اور ہوگیا وہ خدا کیسے ہوا۔
جس خدا کی صفت و قدرت یعنی ویکیوم انرجی پوری کائنات میں موجود ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خدا موجود ہے۔
کسی چیز کی صفت کا ثبوت اس کے وجود کی دلیل ہوتا ہے۔جیسے میں نے اوپر سیارہ نیپچون اور جرمینیم ایلیمنٹ کی دریافت کی مثال دی۔اس طرح اگر ویکیوم انرجی موجود ہے تو یہ خدا کی ذات کا ثبوت ہے نہ ہوتی تو ہمارے پاس یہ خدا کا ثبوت نہ ہوتا۔یہ اثبات اور نفی دونوں طریقوں سے خدا کا وجود ثابت کر رہی ہے۔خدا کی قدرت اور خدا کیسے علیحدہ ہیں۔جو چیز خدا کی قدرت ہے وہ خدا سے تعلق رکھتی ہے خدا کی صفت ہے اور صفت وجود سے جدا نہیں کی جا سکتی اور یہ صفت محض ایک خاصیت ہے جب کہ وجود خود خدا ہے۔جو اس کی تخلیق ہے وہ اس سے تعلق رکھتی ہے جس میں وہ ویکیوم انرجی کے ذریعے تصرف کر رہا ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ وہاں خود موجود ہے۔
ایک ذہانت پس منظر میں موجود ایک وجود کی دلیل ہوتی ہے۔مادے میں پائ جانے والی ذہین توانائ جسے سائنس میں intelligent energy کہا جاتا ہے ایک وجود کی دلیل ہے جسے سائنس اب intelligent creatorکہتی ہے۔اب تو سائنس بھی خدا کے وجود کو ماننے لگی ہے۔
ویکیوم انرجی وہ انرجی ہے حو پوری کائنات میں موجود ہے۔جس سے مادی ذرات بنے اور پھر ان سے کائنات بنی۔یہ قوت بھی کوانٹم فزکس کے مطابق ہر جگہ موجود ہے۔جس نے کائنات کو تخلیق کیا۔ہر جگہ موجود ہونا ثابت ہوگیا۔یہ تخلیقی صفت خود خدا کی ہے۔لہذا خدا خود ہر جگہ موجود ہے۔
جب ہم کہتے ہیں کہ ویکیوم انرجی پوری کائنات میں موجود ہے اور سب کائنات اس کے زیر اثر ہے تو اس بات کا واضح مطلب ہے کہ جس خدا کی یہ قدرت ہے یعنی جو خدا پوری کائنات کو کنٹرول کر رہا ہے یہ اس کے وجود کا ثبوت ہے۔یہ محض ایک وجود یعنی خدا کی قدرت اور صفت ہے جو ایک پوری کائنات پر حاوی خدا کا وجود ثابت کر رہی ہے اور صفت یعنی ویکیوم انرجی بذات خود خدا نہیں بلکہ یہ خدا کی صفات میں سے ایک صفت ہے اور ایک صفت پورے ایک وجود کا بیان نہیں کرتی بلکہ اس کی صفات میں سے ایک صفت کا بیان کرتی ہے کہ پوری کائنات پر حاوی خدا اس کائنات میں موجود ہے۔اور اس سے ہر وقت مادی ذرات یا ورچول پارٹیکل بنتے رہتے ہیں جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ پیدا کرانے والا موجود ہے۔
اور آگے میں نے ذہین توانائ کی مثال دی جو مادے میں ہے۔ذہانت وجود کی دلیل ہے۔لہذا خدا یہاں موجود ہے۔چونکہ یہ توانائ پوری کائنات کے مادے میں موجود ہے لہذا یہ ہر جگہ موجود ہے۔
خدا کی صفت ہی خدا کے وجود کی دلیل ہے اور ذہین توانائ خدا کے خود وہاں موجود ہونے کی دلیل۔ایسی ذہین توانائ جو پورے مادے کے کیمیاوی معاملات کنٹرول کر رہی ہے اس کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا مادے کو ہدایات دے رہی ہے تو یہ مذہب کے اس تصور کا ثبوت ہے کہ خدا ایک ایک ذرے کو چلا رہا ہے کائنات کے۔یہ خدا کا ثبوت نہیں تو اور کس کا ثبوت ہے۔
یہ توانائ ہر زرے میں موجود ہر ذرے کو کنٹرول کرنے والی اسے کیمیاوی معاملات کی نصیحت دینے والی جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہاں خدا موجود یے کیونکہ یہ صفت صرف خدا کی ہے اور کسی کی نہیں۔
صفت ایک بیجان چیز ہے ایک وجود کی خصوصیت کا بیان ہے اور اس کے وجود کی دلیل۔
خدا کی صفات خدا کے وجود کی دلیل ہیں اور ذہین توانائ خود ایک وجود یعنی خدا کے ہونے کی دلیل۔صفات وجود پر دلالت کرتی ہیں۔جس وجود سے تعلق رکھتی ہیں۔صفت ایک خاصیت ہے محض لیکن جس کی یہ صفت ہے وہ ایک وجود ہے۔
خداکی صفت ایک الگ چیزہےاور اس کی صفات کامظھرالگ چیزہے ساری کائنات اس کی صفات کامظھرہے
اگروہ سارے مظاھرکوختم کردےتوان کے ختم ہونے سی اس کی صفات ختم نہ ہونگی۔
ذہانت طاہر کرتی ہے کہ یہاں ایک وجود موجود ہے جیسے میرے الفاظ ظاہر کر رہے ہیں کہ ان کا لکھنے والا ایک وجود یہیں پہ موجود ہے۔اس طرح ذہین توانائ ظاہر کرتی ہے کہ یہ جس کی خاصیت ہے وہ خود یہاں موجود ہے۔
کسی چیز کا وجود ہوتا ہے تو ہی اسکی صفت بھی بیان کی جاتی ہے نا جب وجود نہ ہو گا تو اسکی صفت کہاں سے اۓ گی۔خدا کی صفات سے خدا کا وجود ثابت ہورہا ہے۔
کائنات خدا کی تخلیق ہے اور خدا کی قدرت یعنی ویکیوم انرجی اور ذہین توانائ کی صورت میں اس کے ہر ذرے میں موجود۔
ذہانت وجود کی دلیل ہے لہذا ذہین توانائ پوری کائنات میں خدا کے وجود کی دلیل ہے۔
(جاری ہے)
اس تحقیق میں ایک سائنسدان نک مارٹن خدا کے وجود کا منکر تھا لیکن تحقیقات نے ثابت کر دیا کہ خدا پہ ایمان انسان کی فطرت میں شامل ہے۔
صرف یہی نہیں۔نیورو سائنسدان اینڈریو نیوبرگ کی 2001 کی تحقیق پڑھیں۔وہ لکھتا ہے
““If it’s a very emotional experience, then an emotional part of the brain is involved. If it’s an experience where they lose the sense of self, then areas of the brain that deal with the sense of self are involved.
یہ خیالات اس نے اپنی کتاب Why God would not go away,brain science and biology of belief میں بیان کیے۔
الپر اور نیوبرگ نے کہا ہے کہ یہ جین انسانی ذہن کا تناؤ بھی کم کرتے ہیں۔سائنسی تحقیقات ثابت کر چکی ہیں کہ خدا کے ماننے والوں میں نفسیاتی امراض کی شرح کم اور ملحدین میں زیادہ ہوتی ہے۔
میں ایک بار پھر خدا کی ذات کے کائناتی ثبوتوں پہ آنا چاہوں گا۔
فزکس کے مطابق پوری کائنات میں انرجی کاایک میدان موجود ہے جسے وہ Higgs fieldd کہتے ہیں۔خدا کے ہر جگہ موجود ہونے کا ایک اور سائنسی ثبوت۔
ستاروں کے گول ہونے کو ان کی گریویٹی یا کشش ثقل وضاحت نہیں کر سکتی۔پھر کس نے ان کو گول بنایا۔
گیس لاء کے مطابق گیس کا پھیلاؤ کا دباؤ گریویٹی سے زیادہ ہوتا ہے۔اس طرح ستاروں کی ہائیڈروجن گیس منتشر ہوجاتی۔لیکن پھر بھی وہ گول ہیں۔کس نے ان کو گول بنایا۔
اگر کائنات ایک دھماکے سے بنی تو اس کی کوئ ترتیب نہ ہوتی لیکن یہ ایک خاص ترتیب میں کیوں ہے۔دھماکے بےترتیبی پھیلاتے ہیں ترتیب نہیں۔پھر کائنات میں اتنا ربط اور نظم کیسے آیا۔
خدا کی ذات کا ثبوت اور اس کے سائنسی دلائل
(ویکیوم انرجی اور کوانٹم فلکچویشن خدا کی ذات کے وجود کے ثبوت کے طور پر)
خدا کو اس کی نشانیوں اور طاقت سے پہچانا جا سکتا یے جو پوری کائنات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔خدا کا نہیں دیکھا جا سکتا اور نہ ہی ہر موجود چیز کے وجود کے لیے اس کا نظر آنا لازمی ہے،لیکن خدا کی ذات کا اثر کائنات کے ایک ایک ذرے پر دیکھا جا سکتا ہے اور سائنسی دلائل اس کی تصدیق کرتے ہیں۔
ہم مسلمانوں کو خدا کی ذات پہ یقین کے لیے کسی سائنس کی ضرورت نہیں لیکن یہ دلائل اہل ایمان کے۔ ایمان میں اضافے اور ان ملحدین کے سوالات کے جوابات کے لیے لازمی ہیں جو خدا کی ذات پہ ایمان نہیں رکھتے۔
ویکیوم انرجی ایک ایسی توانائ ہے جو پوری کائنات کے خلا میں موجود ہے۔یہ بات ثابت کرتی ہے کہ کوئ ایک ایسی طاقت کائنات میں موجود ہے جو ہر جگہ موجود ہے،ملحدین کہتے تھے ک کوئ چیز ایسی نہیں جو کائنات میں ہر جگہ موجود ہو۔آج سائنس نے ثابت کر دیاکہ ایک ایسی توانائ موجود ہے جو پوری کائنات میں ہے خدا کے ہر جگہ موجود ہونے کا ایک ثبوت اور اس کے وجود کی ایک علامت۔
زیرو پوائنٹ انرجی یاگراؤنڈ سٹیٹ انرجی کسی کوانٹم مکینیکل سسٹم کی توانائ کی کم ترین سطح ہے۔یہ بذات خود ویکیوم انرجی کی ایک شکل ہے جس کا تعلق ایٹم،الیکٹران،ایٹم کے سب ذرات اور کوانٹم ویکیوم سے ہے۔یعنی ایٹم بذات خود اس توانائ سے متاثر ہوتا ہے۔چونکہ ایٹم پوری کائنات اور ہر جاندار و انسان میں موجود ہیں،لہذا یہ توانائ جو ہر جگہ۔ ایٹم کو متاثر کرتی ہے،یہ بھی ہر جگہ موجود ہے اور اس کا اثر پوری کائنات پہ ہے کیونکہ پوری کائنات میں الیکٹران موجود ہیں۔اس طرح ثابت ہوگیا کہ یہ توانائ نہ صرف کائنات میں ہر جگہ موجود ہے بلکہ کائنات کے ایک ایک ذرے پر اپنا اثر ڈال رہی ہے۔پوری کائنات کے خدا کے کنٹرول میں اور اس کے اثر میں ہونے کا ثبوت۔اس بات نے ملحدین کو جھوٹا کر دیا جو کہتے تھے کہ ایسا خدا کہاں ہے جو اڑتی چڑیا کے پر گنتا رہتا ہے۔اس بات نے ثابت کر دیاکہ اڑتی چڑیا کے پر گننا تو چھوٹی سی بات ہے،کائنات کا ایک ایک ذرہ اس خدا کی طاقت کے اثر میں ہے۔پہلے ملحدین کہتے تھے کہ ایسی کوئ چیز موجود نہیں جو بیک وقت پوری کائنات کو کنٹرول کر سکے۔اب سائنس نے ثابت کر دیا کہ ایسی چیز موجود ہے۔
دوسری بات۔۔۔یہ توانائ کوانٹم مکینکس کے Uncertainty Principle کے نتیجے کے طور پر الیکٹران کو ایک بے قاعدہ حرکت یا Random Motion میں رکھتی ہے جس سے ایک ہی وقت میں الیکٹران کے مقام اور ولاسٹی کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ الیکٹران کی یہ بے قاعدہ حرکت زیرو پوائنٹ انرجی سے متاثر ہوتی ہے جو بذات خود ویکیوم انرجی کی ایک شکل ہے اور اس طرح یہ توانائ تمام الیکٹران کو پوری کائنات میں حرکت میں رکھتی ہے اور ان کو تحریک یا Random Impulses دیتی ہے۔کم سطح پر الیکٹران کو متاثر کر کے در حقیقت یہ توانائ پوری کائنات کو حرکت میں رکھتی ہے کیونکہ الیکٹران پوری کائنات میں موجود ہیں اور سب جاندار،ستارے،سیارے،کہکشائیں،یہاں تک کہ خلا الیکٹران رکھتے ہیں۔اس طرح یہ طاقت پوری کائنات کو نہ صرف کنٹرول کرتی ہے بلکہ اس کو ہر وقت حرکت میں رکھتی ہے۔ثابت ہوگیا کہ ایک ایسی قوت کائنات میں موجود ہے جو پوری کائنات کے مادے کو چلا رہی ہے۔خدا کے وجود کا ایک اور ثبوت اور اس کی قدرت کی ایک اور نشانی۔۔۔ملحدین نے اس کا بھی انکار کیا تھا کہ ایسی کوئ اور نہیں جو پوری کائنات کو چلا سکے اور کائنات خود بخود چل رہی ہے۔اب سائنس نے اس کائنات کو چلا نے والی قوت کا وجود سچ ثابت کر دیا۔
مزید برآں تمام کوانٹم مکینیکل سسٹم اپنی موج اور ذرے کی مشترکہ خصوصیت Wave-Particle Nature کی وجہ سے تبدیلی کے عمل سے گزرتے ہیں۔وارن ہیزنبرگ کے Uncertainty Principle کے مطابق یہ تبدیلی یا فلکچویشن لانے والی توانائ اپنی مخفی سطح سے زیادہ ہونی چاہیے جس کا مطلب کیا ہے کہ یہ توانائ اپنی سطح بڑھا کر پوری کائنات کے الیکٹران کو حرکت میں رکھتی ہے اور اس طرح پوری کائنات کو کنٹرول کرتی ہے کیونکہ الیکٹران پوری کائنات میں موجود ہیں۔خدا کے پوری کائنات کو کنٹرول کرنے کی ایک اور نشانی۔۔۔۔
آئن سٹائن کی E=mc22 کی مساوات کے مطابق کائنات کا کوئ بھی حصہ جو توانائ رکھتا ہے،اسے بطور ایک کمیت یا ماس تصور کیا جاسکتا ہے جو مادی ذرات پیدا کرتی ہے۔اس تصور کے مطابق یہ توانائ پوری کائنات میں موجود ہو کر مادی ذرات پیدا کرتی ہے جس سے ایٹم مالیکیول،سیارے،ستارے،کہکشائیں اور پوری کائنات بنتی ہے۔اس طرح اس توانائ نے پوری کائنات کا مادہ تخلیق کیا۔ثابت ہو گیا کہ ایک ایسی قوت کائنات میں موجود ہے جس نے اس کائنات کو تخلیق کیا۔خدا کے وجود اور اس کے یہ کائنات پیدا کرنے کا ایک اور ثبوت۔ملحدین نے اس کا بھی انکار کیا تھا کہ کوئ قوت ایسی نہیں ہو سکتی جو اکیلی پوری کائنات تخلیق کر کے دکھائے۔
ایک اور بات۔۔۔۔یہ توانائ کائنات میں ہر جگہ موجود ہے،اور آئن سٹائن کی مساوات کے مطابق توانائ مادے میں تبدیل ہو سکتی ہے،لہذا یہ توانائ ایک قوت اور وجود کے طور پر عرش پر رہے یا اپنی علامت یعنی توانائ بن کر پوری کائنات میں۔دونوں کام بیک وقت کر سکتی ہے۔اس طرح خدا کا بیک وقت عرش پر موجود ہونا بھی ثابت اور پوری کائنات میں موجود ہونا بھی ثابت۔۔۔۔۔
کوانٹم فیلڈ تھیوری یا کیو ایف ٹی کے مطابق کائنات کا ہر نقطہ ایک کوانٹم کے ہم آہنگ ارتعاش پذیر یا Quantum Hormonic Oscillator کے طور پر طرز عمل ظاہر کرتا ہے۔اس کے مطابق پوری کائنات مادی میدانوں یا Matter Fieldsسے بنی ہے جس کے کوانٹم فرمیونز۔۔۔۔۔Fermions....یعنی الیکٹران اور کوارک اور قوت کے میدان۔۔۔Force Fields....ہیں جس کے کے کوانٹا بوزانز۔۔۔Bosons....یعنی فوٹان اور گلوآنز۔۔۔۔Gluons...ہیں۔یہ سب زیرو پوائنٹ انرجی رکھتے ہیں جو کہ زیرو پوائنٹ انرجی کی ایک شکل ہے۔اس طرح ایک اور ثبوت کہ کائنات کے بنیادی ذرات یعنی الیکٹران،کوارک،فوٹان اس توانائ کے زیر اثر۔چونکہ یہ ذرات پوری کائنات میں موجود ہیں اور کائنات ان ذرات سے بنی ہے۔لہذا ان زرات کو کنٹرول کرنے والی قوت بھی ہرجگہ موجود اور پوری کائنات اس کے زیر اثر۔خدا کے وجود کی ایک اور نشانی۔۔۔چونکہ یہ ان ذرات کو کنٹرول کر رہی ہے،لہذا اس بات کا ثبوت کہ پورا مادہ اور کائنات ہر وقت اس کے زیر اثر اور وہ خود کسی کے زیر اثر نہیں۔اس طرح نہ صرف اس نے اس کائنات کو تخلیق کیا بلکہ اسے ہر وقت کنٹرول بھی کر رہی ہے۔یعنی مادہ اس کے زیر اثر اور خود مادے کے اثر سے آزاد۔اور اس کے ساتھ یہ بھی ثابت کہ یہ قوت کائنات میں ہر وقت اپنا اثر ڈال رہی ہے۔
ماہرین فزکس جان ویلر اور رچرڈ فنمین۔۔۔Feynman...نے اس توانائ کی پیمائش کرنے کی کوشش کی اور نتیجہ اخذ کیا کہ یہ توانائ ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم کی نیوکلیئر انرجی سے بھی اتنی زیاددہ کی اس کی ایک چائے کے کوزے یا کپ کے برابر مقدار پوری دنیا کے سمندروں کو ابال دے۔قرآن کی آیت سچ ثابت ہوگئ کہ جس قیامت کے دن سمندروں کو آگ لگا دی جائے گی۔سائنس نے ثابت کردیا کہ یہ توانائ ایسا کر سکتی ہے۔خدا کی حیران کن اور عظیم طاقت کی ایک اور نشانی۔۔۔۔
وارن ہیزنبرگ کے Uncertainty Principlee کے مطابق الیکٹرون کا مقام و ولاسٹی ایک وقت میں متعین کرنا مشکل یعنی یہ الیکٹران ایک نامعلوم توانائ سے متاثر ہوتے ہیں جو کہ ویکیوم انرجی ہے اور پوری کائنات میں موجود۔خدا کی طاقت کی ایک اور نشانی۔۔۔
کوانٹم طبیعیات یا کوانٹم فزکس کے مطابق تمام مادی ذرات کو کوانٹم ویکیوم کی متحرک حالت۔۔۔Excited State....کے طور پر کیا جا سکتا ہے۔اس کے مطابق مادے کی تمام خصوصیات محض ویکیوم فلکچویشن ہیں جو زیرو پوائنٹ فیلڈ اور اس طرح زیرو پوائنٹ انرجی سے تعامل کے نتیجہ میں سامنے آتی ہیں اور خود زیرو پوائنٹ انرجی ویکیوم انرجی کی ایک شکل ہے۔اس طرح یہ انرجی زیرو پوائنٹ انرجی کی صورت میں مادے کی سب خصوصیات کنٹرول کرتی ہے۔اس طرح پوری کائنات محض اس توانائ کی ویکیوم فلکچویشن ہے جو کہ ہر جگہ موجود ہے،اور کچھ نہیں۔خدا کے پوری کائنات کے مالک ہونے اور کائنات کے درحقیقت اس خدا کا ایک عکس ہونے کی ایک اور نشانی۔۔
اس ویکیوم انرجی کا طبیعیاتی علم کائنات۔۔۔۔۔Physical Cosmologyy....سے بھی گہرا تعلق ہے۔طبیعیاتی علم کائنات کی ساخت اور حرکیات کا علم ہے جس کا تعلق کائنات کی ابتدا،اس کی ساخت اور انجام سے ہے۔لہذا کائناتی علم طبیعیات کے مطابق اس توانائ کا کائنات کی ابتداء و تخلیق سے گہرا تعلق ہے۔خدا کی طرف سے کائنات کی تخلیق کی ایک اور نشانی۔
تاریک توانائ۔۔۔۔Dark Energyy ویکیوم انرجی کی ایک شکل جو پوری کائنات میں موجود ہے اور جو حقیقی ذرات۔۔۔۔Virtual Particles....کی توانائ ہے۔یہ توانائ بھی ویکیوم انرجی ہے جس سے یہ ذرات بنتے ہیں۔اس طرح ویکیوم انرجی زیرو پوائنٹ انرجی اور ڈارک انرجی کی صورت میں پوری کائنات میں موجود۔خدا کی طاقت کی ایک اور نشانی۔۔۔
ابتدائی کائنات ایک ٹوٹتا ہوا ثانیہ۔۔۔۔Split Secondd... تھی جو اتنی گرم تھی کہ اس کے ذرات کی توانائ آج تک زمیں کے پارٹیکل ایکسلریٹر ست زیادہ تھی۔ان ذرات کا تعلق ویکیوم انرجی سے تھا،یعنی کائنات کی ابتداء ایک توانائی سے ہوئ جو ہر جگہ موجود۔۔خدا کی ذات کی طرف سے کائنات کی تخلیق کی ایک اور نشانی۔۔۔
ان ذرات یعنی پروٹان،الیکٹران،نیوٹران سے نیوکلیس اور پھر ایٹم ،پھر پوری کائنات کے ستاروں کا ایندھن یعنی ہائیڈروجن' پھر ہیلیم پھر کاربن اور پھر پوری کائنات بنی جس کی ابتداء ایک توانائ تھی یعنی یہ توانائ پہلے تھی،مادہ بعد میں بنا۔
ویکیوم انرجی ریاضیاتی طور پر لامحدود۔۔۔۔Infinite...ہے جس کی بنیاد اس تصور پر ہے کہ ہم توانائ کی صرف ایک مفروضے کی بنیاد پت پیمائش کرسکتے ہیں،جو کہ تب بھی درست نہیں جب ہم بالواسطہ کائناتی مستقل۔۔۔۔Cosmological constant...کے ذریعے سے بھی اس کو مشاہدہ کرلیں۔یعنی یہ انتہائ لامحدود ہے۔خدا کی ذات کے لامحدود ہونے کی ایک اور نشانی۔۔۔
تاریک توانائ یا ڈارک انرجی اور تاریک مادہ یا ڈارک میٹر کی نسبت کو کائناتی مستقل۔۔۔Cosmological constant....کہا جاتا ہے جو کہ کائنات کے ویکیوم کی انرجی کی کثافت۔۔۔۔Energy Density... ہے۔جو کہ کائنات میں ہر جگہ موجود۔۔۔یہ ویکیوم انرجی کائناتی مستقل۔۔۔۔Cosmological constant...بناتی ہے جو کہ کائنات کے پھیلاؤ کو متاثر کرتا ہے۔اس طرح یہ توانائ کائنات کے پھیلاؤ کی بھی کنٹرول کررہی ہے۔خدا کی طرف سے کائنات کو پہلے پیدا کرنے اور پھر وسعت دینے کی ایک اور نشانی۔۔۔
ویکیوم انرجی کی سطح میں عارضی تبدیلی کو کوانٹم فلکچویشن کہتے ہیں جو کہ کائنات کی ابتداء میں اہم ہو سکتے ہیں۔اس تبدیلی سے حقیقی ذرات۔۔۔۔Virtual Particles....بنتے ہیں جو اس توانائ سے بنتے ہیں اور پھر دوبارہ اسی توانائ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔کائنات کے پھیلاؤ کے ماڈل۔۔۔۔Model Of Inflation....کے مطابق پھیلاؤ کے وقت جو ذرات موجود تھے وہ جسامت میں بڑے ہوئے اور تمام مادے کی بنیاد بنے۔اس طرح اس توانائ نے اپنے اندر سے مادے کو تخلیق کیا جو پوری کائنات کی بنیاد بنا۔اس توانائ نے نہ صرف کائنات کی تخلیق میں اہم کردر ادا کیا بلکہ اس کائنات کے پھیلاؤ میں بھی اہم کردار ادا کیا۔خدا کی طرف سے مادے اور پھر اس سے پوری کائنات کی تخلیق کی ایک اور نشانی۔۔۔
کیا خدا ایک توانائ ہے؟اس کے لیے ہمیں توانائ کی تعریف جاننی چاہیے۔توانائ کسی چیز کے کوئ کام کرنے کی صلاحیت کو کہتے ہیں۔ہمارا ایمان ہے کہ خدا سب کچھ کر سکتا ہے۔اس طرح وہ ایک طرح کی توانائ رکھتا ہے۔توانائ چونکہ نہ پیدا کی جا سکتی ہے اور نہ ہی فنا،اس طرح خدا کو نہ کسی نے پیدا کیا اور نہ کوئ اسے فنا کر سکتا ہے۔مطلب خدا ہمیشہ سے موجود ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا۔
زیرو پوائنٹ انرجی کے مفروضے کے مطابق کائنات کی مجموعی توانائی زیرو ہے۔مادے کی مثبت توانائ کو کشش ثقل یا گریویٹی کی منفی توانائ برابر کر دیتی ہے لیکن یہ کشش ثقل بذات خود مادے کی وجہ سے ہے جو کہ ویکیوم انرجی سے متاثر ہوتا ہے یعنی ایک ویکیوم انرجی کے زیر اثر مادے کی منفی کشش ثقل کی منفی توانائ اور دوسری طرف اس مادے کی اپنی مثبت توانائ،دونوں صورتوں میں مادہ اور اس کی توانائ ویکیوم انرجی کے زیر اثر ہے۔اور اس طرح کائنات ایک قیام پذیر حالت میں ہے۔اس توانائ نے اپنے آپ کو متوازن رکھ کر کائنات کو متوازن رکھا ہوا ہے۔اگر یہ مثبت مادے یا کشش ثقل یا گریویٹی کی منفی توانائ،کسی بھی صورت میں اپنا ایک پہلو بڑھا دے تو کائنات ٹکڑے ٹکڑے ہو جاۓ گی اور اس کا نام قیامت ہے۔اور قیامت تک اس توانائ کا ایک پہلو اس کے دوسرے پہلو کے خلاف نہیں جاتا،یعنی یہ توانائ خود اپنے خلاف نہیں جاتی اور اس کا یہ توازن ہے کہ جس سے کائنات قائم ہے۔جب بھی اس نے یہ متوازن ختم کیا،کائنات فنا ہو جائے گی۔یعنی سائنس نے بھی مان لیا کہ قیامت یعنی کائنات ک فنا ہوسکتی ہے۔اور دوسرے سائنسدان بھی کہ چکے ہیں کہ کائنات کی مجموعی توانائی زیرو نہیں ہے۔جس کا مطلب ہے کہ کائنات فنا ہوسکتی ہے کیونکہ اس کی توانائ غیر متوازن حالت میں ہے۔
اس طرح خدا کی قدرت کی نشانی اور خدا کی طاقت ویکیوم انرجی کی صورت میں پوری کائنات میں موجود ہے۔یہ سب دلائل ثابت کرتے ہیں کہ کائنات میں ایک ایسی قوت موجود ہے جو کائنات میں ہر جگہ موجود ہے،جس نے اس کائنات کو تخلیق کیا اور اب اس کائنات کو وسعت دے رہی ہے جیسا کہ سائنسدان کہتے ہیں کہ کائنات پھیل رہی ہے۔یہ سب دلائل ہر جگہ موجود،سب سے بڑے طاقتور خدا کا وجود ثابت کرتے ہیں جس کے قابو اور اثر میں کائنات کا ایک ایک ذرہ ہے اور اس کی دلیل ہم اوپر دے چکے ہیں۔یہ سب نشانیاں دیکھ کر ہم کیوں خدا کی ذات پہ ایمان نہ لائیں جیسا کہ قرآن میں ہے۔۔۔۔۔
انی وجھت وجھی للذی فطرالسموت والارض حنیفا وما انا من المشرکین
ترجمہ۔۔۔۔
میں نے اپنا منہ سب سے موڑ کر اس اللٰہ کی طرف کرلیا جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔
خدا کے وجود کے بارے میں جتنےنظریات پروان چڑھے ہیں،وہ انسانی سمجھ اور عقل کے دائرہ کارکے اندر ہیں- ان کو سمجھنے کے لیے مثالوں اورتمثیلوں کو استمعال کیا جاتا ہے جو حقیقت سےبہت دورہیں کیوںکہ؛ 'اس کی طرح کا کوئی نہیں' - لہٰذا انسان اس نتیجہ پر پہنچا کہ خدا کو اس کے 'کاموں اور نشانیوں' سے پہچانا جا سکتا ہے۔اور یہ نشانیاں ملحدین کے عقلی و منطقی دلائل کو جھوٹ ثابت کر کے سائنس دکھا رہی ہے۔
کائنات کو خدا نہیں کہا جاسکتا۔وہ اس لیے کہ خدا کسی کے کنٹرول میں نہیں ہوتا جب کہ یہاں ہم دیکھ رہے ہیں کہ پوری کائنات ایک نامعلوم قوت کے کنٹرول میں ہے لہذا یہ کائنات خدا نہیں بلکہ اسے کنٹرول کرنے والی وہ ہستی خدا ہے۔
خدا ایک ایسی ہستی ہے جو پوری کائنات کو کنٹرول کرتی ہو۔زمان و مکان کی پابندی سے آزاد ہو۔اگر ایک ایسی ہستی کا وجود سائنس ثابت کردے تو وہ خدا ہی ہوگا۔
جب ایک ہستی کی خصوصیات ثابت ہوجائیں تو اس کا وجود ثابت ہوجاتا ہے۔وجود کا بیان صفات سے ہوتا ہے اور صفات وجود سے الگ نہیں کی جا سکتی۔
خدااپنے وجود کے لیے کائنات کا محتاج نہیں۔جب یہ کائنات نہیں تھی وہ تب بھی تھا۔اب جب ہے تو وہ اس کائنات میں بھی موجود ہے اور اس سے اوپر بھی۔اور کائنات حتمی یا مطلق نہیں۔سائنس خود کہتی ہے۔لہذا خدا اگر کائنات سے باہر بھی ہو تو بھی کسی طرح اس کا انکار نہیں ہوتا جب کہ میں کہتا ہوں کہ وہ اس کائنات میں بھی ہے اور اس سے اوپر بھی۔
اسی طرح خدا نے کائنات تخلیق کی وہ اپنی تخلیق کی جگہ اپنی تخلیق کے ساتھ اس کے زرے ذرے میں موجود ہے اس کی تخلیق اس کے دائرہ کار میں ہے۔
خدا جب کائنات کے ذرے ذرے میں موجود ہے الیکٹران پروٹان نیوٹران کے اوپر بھی اس کی قوت کا کنٹرول ہے تو ظاہرہے کہ وہ کائنات میں ایسے ہی موجود ہے حیسے جسم میں خون۔جیسے جسم کے وجود سے اس میں موجود خون کی نفی نہیں ہوتی اس طرح کائنات کے وجود سے اس کے ذرے ذرے میں موجود خدا کی نفی نہیں ہوتی۔
خدا کیسے کائنات سے باہر ہوسکتا ہے۔خود سائنس کے مطابق وہ ویکیوم انرجی کی صورت میں ہر ذرے میں موجود ہے،intelligent energy کی صورت میں پوری کائنات کے مادے میں بھی موجود اور اس کائنات سے باہر بھی موجود اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جب کائنات یعنی زمان و مکان نہیں تھی تب بھی خدا تھا ۔ملحدین خدا کی ذات کے انکار کی جو منطق اور فلسفے پیش کر تے ہیں سائنس غلط ثابت کر چکی ہے۔اس لیے بہتر ہے کہ ملحدین فرسودہ فلسفے پیش نہ کریں بلکہ مستند اور تجرباتی علم یعنی سائنس سے ثابت کر کے دکھائیں کہ خدا نہیں ہے اور پھر ہم ثابت کریں گے کہ خدا ہے۔
ہم تخلیق ہیں اور کنٹرول میں ہیں۔جو تخلیق ہو کنٹرول میں ہو وہ خدا نہیں ہوتا۔بلکہ جو خدا میرے اور اس کائنات کے ہر ذرے کو اس کے اندر رہ کر کنٹرول کر رہا ہے وہ خدا ہے۔یہ وجود فنا ہے لیکن سائنس کے مطابق اس وجود مین موجود ویکیوم انرجی کو فنا نہیں۔جس کو بقا نہیں وہ خدا نہیں۔جس کنٹرول کرنے والی ہستی کو خدا ہے جو اندر بیٹھ کر کنٹرول کرتی ہے لیکن وجود کے ساتھ فنا نہیں ہوتی وہ خدا ہے۔خدا کی قدرت ویکیوم انرجی کی صورت میں پوری کائنات میں موجود اور ذہین توانائ یا intelligent energy کی صورت میں کائنات کے تمام مادے میں بھی موجود۔یعنی مادے کے ہر ذرے کے اندر ہر ذرے کے باہر یعنی ہر جگہ اس خدا کی قدرت ہے اور یہ سائنس ثابت کر چکی ہے۔مادہ توانائ میں تبدیل ہو سکتا ہے اور اس کے اندر ویکیوم انرجی کی وہ خدائ قدرت رکھی گئی ہے جس ویکیوم انرجی سے یہ سائنس کے مطابق پیدا کیا گیا۔لہذا مادہ خود خدا کی قدرت کس ایک اظہار اور اس کی تخلیق اور ذہین توانائ کی صورت میں اس کی قدرت کے زیر اثر۔خدا کی قدرت باہر ویکیوم انرجی کی صورت میں اور مادے کے اندر ذہین توانائ ج صورت میں موجود اور خود مادہ اسی ویکیوم انرجی کی پیداوار۔لہذا پوری کائنات مادے کے اندر مادے ست باہر اور خود مادہ خدا کی تخلیق اور خدا کی قدرت کے زیر اثر۔کسی صورت بھی خدا کے وجود کا انکار ممکن نہیں۔
خدا خالق ہے۔ باہر بھی اس کی قدرت موجود اور اس کائنات کے ہر intelligent energyy کی صورت میں موجود اور مادہ بذات خود اسی کی قدرت یعنی ویکیوم انرجی کی تخلیق۔اب مادے کے باہر مادے کے اندر ہر جگہ اس کی قدرت موجود اور پوری کائنات کا مادہ ذہین توانائ کی صورت میں اس کے زیر اثر۔یعنی مادہ یعنی مکان اس کی پیداوار اور اس کا محتاج اور زمان بھی کیونکہ زمان مکان کی وجہ سے ہے۔لہذا جس خدا نے یہ زمان و مکان تخلیق کیا وہ اس زمان و مکان کی پابندی سے آزاد ہے کیونکہ خالق کبھی مخلوق کا پابند نہیں ہوتا۔
لیکن ہر ذرہ یا کائنات خود خدا نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ خدا کی قدرت یعنی ویکیوم انرجی سے پیدا کیا گیا اور مخلوق کبھی خدا نہیں ہو سکتی اور یہ کائنات خود خدا نہیں کیونکہ یہ ویکیوم انرجی اور۔ ذہین توانائ کی صورت میں خدا کی قدرت کے زیر اثر جب کہ خالق کسی کے زیر اثر نہیں ہوتا۔
ویکیوم انرجی کائنات سے پہلے موجود تھی۔ہر جگہ موجود پوری کائنات کوانٹم فلکچویشن سے اس سے پیدا کی گئ اب یہ پوری کائنات کو کنٹرول کر رہی ہے لہذا یہ کائنات نہیں بلکہ خالق کی قدرت اور وجہ تخلیق ہے۔
خدا کی قدرت کی ایک دلیل کہ خدا کائنات سے بھی پہلے موجود تھاجس نے اپنی اس قدرت سے اس کائنات کو اس توانائ سے تخلیق کیا اور اب اسے اسی کے ذریعے کنٹرول کر رہا ہے۔یہ توانائ خدا کی قدرت، خالق اور مالک ہونے کا سائنسی ثبوت ہے۔یہ خدا کی قدرت اور صفت ہے اور صفت اپنے وجود کا بیان کرتی ہے جس وجود کی وہ صفت ہوتی ہے۔
ویکیوم انرجی بذات خود خدا کی قدرت کا ثبوت وہ کیسے خدا سے الگ کائنات خدا کی تخلیق اور اس کائنات کے ہر ذرے میں ویکیوم انرجی اور ذہین توانائ موجود پھر کیسے خدا کی قدرت وہاں موجود نہ ہوئ جہاں یہ دونوں ہیں۔
اور ویکیوم انرجی ایک خاصیت ہے یعنی خدا کی قدرت جب کہ خدا ایک اسم یا وجود ہے جس کی یہ قدرت ہے اور صفت وجود نہیں ہوتی بلکہ وجود کی خاصیت ہوتی ہے۔
اگر خدا کی قدرت ویکیوم انرجی کی صورت میں پوری کائنات میں موجود ہے تو یہ اسی بات کا ثبوت ہے کہ وہاں خدا موجود ہے۔
ہر چیز کا بیان اس کی نفی سے ہوتا ہے اور خدا کا بیان اس کے غیر کی نفی سے ہوتا ہے کیوں کہ خدا ہے ہی وہی جس سے بڑھ کر کوئ نہیں۔جس سے بڑھ کر کوئ اور ہوگیا وہ خدا کیسے ہوا۔
جس خدا کی صفت و قدرت یعنی ویکیوم انرجی پوری کائنات میں موجود ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خدا موجود ہے۔
کسی چیز کی صفت کا ثبوت اس کے وجود کی دلیل ہوتا ہے۔جیسے میں نے اوپر سیارہ نیپچون اور جرمینیم ایلیمنٹ کی دریافت کی مثال دی۔اس طرح اگر ویکیوم انرجی موجود ہے تو یہ خدا کی ذات کا ثبوت ہے نہ ہوتی تو ہمارے پاس یہ خدا کا ثبوت نہ ہوتا۔یہ اثبات اور نفی دونوں طریقوں سے خدا کا وجود ثابت کر رہی ہے۔خدا کی قدرت اور خدا کیسے علیحدہ ہیں۔جو چیز خدا کی قدرت ہے وہ خدا سے تعلق رکھتی ہے خدا کی صفت ہے اور صفت وجود سے جدا نہیں کی جا سکتی اور یہ صفت محض ایک خاصیت ہے جب کہ وجود خود خدا ہے۔جو اس کی تخلیق ہے وہ اس سے تعلق رکھتی ہے جس میں وہ ویکیوم انرجی کے ذریعے تصرف کر رہا ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ وہاں خود موجود ہے۔
ایک ذہانت پس منظر میں موجود ایک وجود کی دلیل ہوتی ہے۔مادے میں پائ جانے والی ذہین توانائ جسے سائنس میں intelligent energy کہا جاتا ہے ایک وجود کی دلیل ہے جسے سائنس اب intelligent creatorکہتی ہے۔اب تو سائنس بھی خدا کے وجود کو ماننے لگی ہے۔
ویکیوم انرجی وہ انرجی ہے حو پوری کائنات میں موجود ہے۔جس سے مادی ذرات بنے اور پھر ان سے کائنات بنی۔یہ قوت بھی کوانٹم فزکس کے مطابق ہر جگہ موجود ہے۔جس نے کائنات کو تخلیق کیا۔ہر جگہ موجود ہونا ثابت ہوگیا۔یہ تخلیقی صفت خود خدا کی ہے۔لہذا خدا خود ہر جگہ موجود ہے۔
جب ہم کہتے ہیں کہ ویکیوم انرجی پوری کائنات میں موجود ہے اور سب کائنات اس کے زیر اثر ہے تو اس بات کا واضح مطلب ہے کہ جس خدا کی یہ قدرت ہے یعنی جو خدا پوری کائنات کو کنٹرول کر رہا ہے یہ اس کے وجود کا ثبوت ہے۔یہ محض ایک وجود یعنی خدا کی قدرت اور صفت ہے جو ایک پوری کائنات پر حاوی خدا کا وجود ثابت کر رہی ہے اور صفت یعنی ویکیوم انرجی بذات خود خدا نہیں بلکہ یہ خدا کی صفات میں سے ایک صفت ہے اور ایک صفت پورے ایک وجود کا بیان نہیں کرتی بلکہ اس کی صفات میں سے ایک صفت کا بیان کرتی ہے کہ پوری کائنات پر حاوی خدا اس کائنات میں موجود ہے۔اور اس سے ہر وقت مادی ذرات یا ورچول پارٹیکل بنتے رہتے ہیں جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ پیدا کرانے والا موجود ہے۔
اور آگے میں نے ذہین توانائ کی مثال دی جو مادے میں ہے۔ذہانت وجود کی دلیل ہے۔لہذا خدا یہاں موجود ہے۔چونکہ یہ توانائ پوری کائنات کے مادے میں موجود ہے لہذا یہ ہر جگہ موجود ہے۔
خدا کی صفت ہی خدا کے وجود کی دلیل ہے اور ذہین توانائ خدا کے خود وہاں موجود ہونے کی دلیل۔ایسی ذہین توانائ جو پورے مادے کے کیمیاوی معاملات کنٹرول کر رہی ہے اس کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا مادے کو ہدایات دے رہی ہے تو یہ مذہب کے اس تصور کا ثبوت ہے کہ خدا ایک ایک ذرے کو چلا رہا ہے کائنات کے۔یہ خدا کا ثبوت نہیں تو اور کس کا ثبوت ہے۔
یہ توانائ ہر زرے میں موجود ہر ذرے کو کنٹرول کرنے والی اسے کیمیاوی معاملات کی نصیحت دینے والی جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہاں خدا موجود یے کیونکہ یہ صفت صرف خدا کی ہے اور کسی کی نہیں۔
صفت ایک بیجان چیز ہے ایک وجود کی خصوصیت کا بیان ہے اور اس کے وجود کی دلیل۔
خدا کی صفات خدا کے وجود کی دلیل ہیں اور ذہین توانائ خود ایک وجود یعنی خدا کے ہونے کی دلیل۔صفات وجود پر دلالت کرتی ہیں۔جس وجود سے تعلق رکھتی ہیں۔صفت ایک خاصیت ہے محض لیکن جس کی یہ صفت ہے وہ ایک وجود ہے۔
خداکی صفت ایک الگ چیزہےاور اس کی صفات کامظھرالگ چیزہے ساری کائنات اس کی صفات کامظھرہے
اگروہ سارے مظاھرکوختم کردےتوان کے ختم ہونے سی اس کی صفات ختم نہ ہونگی۔
ذہانت طاہر کرتی ہے کہ یہاں ایک وجود موجود ہے جیسے میرے الفاظ ظاہر کر رہے ہیں کہ ان کا لکھنے والا ایک وجود یہیں پہ موجود ہے۔اس طرح ذہین توانائ ظاہر کرتی ہے کہ یہ جس کی خاصیت ہے وہ خود یہاں موجود ہے۔
کسی چیز کا وجود ہوتا ہے تو ہی اسکی صفت بھی بیان کی جاتی ہے نا جب وجود نہ ہو گا تو اسکی صفت کہاں سے اۓ گی۔خدا کی صفات سے خدا کا وجود ثابت ہورہا ہے۔
کائنات خدا کی تخلیق ہے اور خدا کی قدرت یعنی ویکیوم انرجی اور ذہین توانائ کی صورت میں اس کے ہر ذرے میں موجود۔
ذہانت وجود کی دلیل ہے لہذا ذہین توانائ پوری کائنات میں خدا کے وجود کی دلیل ہے۔
(جاری ہے)
یہ قوت بھی کوانٹم فزکس کے مطابق ہر جگہ موجود ہے۔جس نے کائنات کو تخلیق کیا۔ہر جگہ موجود ہونا ثابت ہوگیا۔
ReplyDeleteیہ جملہ درست نہیں کہ خدا ہر جگہ موجود ہے ۔ اللّہ پاک عرش پر مستوی ہے ۔
باقی خوبصورت وضاحت کی ہے