Wednesday, February 22, 2017

کتوں کو جان سے مار دینے والی احادیث کی حقیقت

کتوں کو جان سے مار دینے والی احادیث کی حقیقت
-_-__----__---___---___----___----___----___----__---__---__-
بہت سیدھی سی بات کا بہت غلط مطلب نکال لینا بہت سے لوگوں کے لیے بہت آسان ہوتا ہے۔ ان کو بہت آسان لفظوں میں ہم ملحد بھی کہہ سکتے ہیں۔
حال ہی میں ایک پوسٹ پر ملحدوں کے ایک بڑے "پیشوا" کو کتوں کے قتل سے متعلق احادیث بیان کرکے ملحدوں کی داد سمیٹتے اور مجھ جیسے کم علم مسلمانوں کو جواب میں آئیں بائیں کرتے دیکھا تو احساس ہوا کہ ان احادیث کی اصل کو عام کرنا کتنا ضروری ہے۔
اس ضمن میں بیان کی جانے والی احادیث دراصل ہیں کس طرح، آیئے جانتے ہیں۔
حدیث شریف میں ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک بار حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خاص وقت پر آنے کا وعدہ کیا تھا، مگر وہ مقرّرہ وقت پر نہیں آئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے پریشانی ہوئی کہ جبرائیل امین تو وعدہ خلافی نہیں کرسکتے، ان کے نہ آنے کی کیا وجہ ہوئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ آپ کی چارپائی کے نیچے کتے کا ایک بچہ بیٹھا تھا، اس کو اُٹھوایا گیا، اس جگہ کو صاف کرکے وہاں چھڑکاوٴ کیا گیا، اس کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرّرہ وقت پر نہ آنے کی شکایت کی، حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کی چارپائی کے نیچے کتا بیٹھا تھا اور ہم اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو۔ (مشکوٰة باب التصاویر ص:۳۸۵ و مسلم)
اس حدیث کے بیان ہونے سے قبل عرب معاشرے میں کتوں کو بہت شوق سے پالا جاتا تھا۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے اس کی ضد کی اور مذکورہ حدیث کی روشنی میں گویا گھر کے اندر کتا رکھنے کی ممانعت فرمائی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اسلام کا یہ فیصلہ درست تھا یا کہ غلط؟
سب سے پہلی بات یاد رکھنے کی یہی ہے کہ اس دور میں کتے کے کاٹنے کے انجکشن ہرگز موجود نہیں تھے۔ گویا اگر کسیکو کتا کاٹ لیتاتو اس کی موت تک واقع ہوسکتی تھی۔
یہ بات بھی ہمیں اب جاکر پتا چلی ہے کہ کتے کے لعاب میں زہریلے مادے ہوتے ہیں، لیکن اسلام نے تبھی کتے کے جھوٹے برتن کو بھی ناپاک قرار دے دیا تھا۔ اور اسے پاک کرنے کا طریقہ پہلی بار مٹی کے ساتھ سات بار پانی سے دھونا بتایا۔ حالانکہ نجس برتن تو تین دفعہ دھونے سے شرعاً پاک ہوجاتا ہے۔ غور فرما لیں کتے کے جھوٹے برتن کی پاکی کے لیے چار اضافی دھلائیاں چہ معنی دارد؟ باقی کتا نجس العین نہیں۔ اگر اس کا جسم خشک ہو اور کپڑوں کو لگ جائے تو کپڑے ناپاک نہیں ہوں گے۔ لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فرشتوں پر یقین کریں نہ کریں، لیکن کتے، سانپ، بچھو، چھکلی جیسے زہریلے اور جھپٹنے والی چیل جیسی ضرر رساں مخلوق کو گھر میں رکھنا اس طور بھی خطرے سے خالی نہیں۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث میں بھی ذکر ہے:
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ بنت الصدیق رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ حضور نبی مہتشم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
خَمْسٌ فَوَاسِقُ يُقْتَلْنَ فِى الْحَرَمِ الْفَأْرَةُ ، وَالْعَقْرَبُ ، وَالْحُدَيَّا ، وَالْغُرَابُ ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ
یعنی:
 پانچ (جانور) فاسق ہیں، انہیں حرم میں بھی قتل کیا جا سکتا ہے، چوہا، بچھو، چیل، کوا، اور درندگی کرنے والا خونخوار کتا۔ (صحیح البخاری/حدیث /3314کتاب بدء الخلق/باب16)
اسی طرح ایک اور حدیث پاک میں بھی آتا ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مہتشم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 خَمْسٌ مِنَ الدَّوَابِّ مَنْ قَتَلَهُنَّ وَهْوَ مُحْرِمٌ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ الْعَقْرَبُ ، وَالْفَأْرَةُ ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ ، وَالْغُرَابُ ، وَالْحِدَأَةُ
یعنی:
جانوروں میں سے پانچ  ایسے ہیں جنہیں اگر کوئی احرام کی حالت میں بھی قتل کر دے تو اُس پر کوئی گناہ نہیں، بچھو، اور چوہا، اور درندگی کرنے والا خونخوار کتا، اور کوّا، اور چیل۔ (صحیح البخاری/حدیث /3315کتاب بدء الخلق/باب16)
متذکرہ بالا دونوں ہی احادیث میں آپ نے ملاحظہ فرمایا دراصل کن کتوں کو مارنے کا حکم دیا گیا؟ جو خونخوار اور ضرر رساں ہوں۔ کیونکہ بہرحال عقل کا بھی یہی تقاضا ہے کہ انسانی جان ایک خونخوار کتے سے بڑھ کر ہے۔ مگر ملحدوں کے پیشوا نے صرف وہی احادیث نقل کی تھیں جن میں اس حکم کا اجمالی ذکر ہے۔ جیسا کہ عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ ہی کی ایک اور روایت کو لے لیں۔ عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَمَرَ بِقَتْلِ الْكِلاَبِ
یعنی:
 ُآپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کتوں کو قتل کرنے کا حکم فرمایا۔ (صحیح البخاری/حدیث /3323کتاب بدء الخلق/باب17)
اب ہم میں سے کوئی ایک بھی انصاف پسند یہ بات مان سکتا ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا، سب کے سب کتوں کے لیے تھا؟ جبکہ ابھی عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ ہی کی تفصیلی روایت اوپر بیان کی گئی۔ صاف ظاہر ہے کہ جہاں بھی صرف کتے مارنے کے حکم کا ذکر ہے، وہاں یہ بات understood ہے کہ مراد خونخوار کتوں کو ہی مارنا ہے، جس کا ثبوت بھی احادیث مبارکہ سے ہی پیش خدمت ہے۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں:
أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِقَتْلِ الْكِلاَبِ حَتَّى إِنَّ الْمَرْأَةَ تَقْدَمُ مِنَ الْبَادِيَةِ بِكَلْبِهَا فَنَقْتُلُهُ ثُمَّ نَهَى النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- عَنْ قَتْلِهَا وَقَالَ، عَلَيْكُمْ بِالأَسْوَدِ الْبَهِيمِ ذِى النُّقْطَتَيْنِ فَإِنَّهُ شَيْطَانٌ
یعنی:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  نے ہمیں حکم دِیا کہ کتوں کو قتل کردِیا جائے، یہاں تک کہ مضافات کی طرف سے کوئی عورت اپنے کتے کے ساتھ آئی تو ہم اُس کتے کو بھی قتل کر آئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو قتل کرنے سے منع فرما دیا اور ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اُس خونخوار کالے کتے کو قتل کرو جس (کے چہرے) پر دو نقطے ہوتے ہیں، کیونکہ وہ شیطان ہوتا ہے۔ (صحیح مُسلم/حدیث/4101/کتاب المساقاۃ / باب10)
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی ہی ایک اور روایت ملاحظہ ہو:
أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِقَتْلِ الْكِلاَبِ فَأَرْسَلَ فِى أَقْطَارِ الْمَدِينَةِ أَنْ تُقْتَلَ
یعنی:
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا اور مدینہ کی بیرونی حدود تک لوگوں کو بھیجا کہ کتوں کو قتل کیا جائے. (صحیح مُسلم شریف /حدیث/4100کتاب المساقاۃ/باب 10)
ایک روایت جو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہی سے ہے، اس میں یہ الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دے کر مدینہ کے اطراف بھیجا تو ہم نے وہاں اونٹنی کے ساتھ بندھا ہوا کتا بھی نہ چھوڑا۔ الخ۔ (حوالہ یاد نہیں)
تو آپ نے ملاحظہ کیا، جب صورتحال یہ سامنے آنا شروع ہوئی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان خونخوار کتوں کو بھی مارنا شروع کر دیا جو اپنی یا کھیتوں وغیرہ کی حفاظت کے لیے رکھے جاتے تھے، (جو ظاہر ہے ڈھیلے ڈھالے اور مریل تو ہوتے نہیں۔ ہر نئے شخص پر غراتے اور جھپٹ پڑتے ہیں۔ یقیناً صحابہ کو یہ بھی ضرر رسان ہی معلوم ہوئے ہوں گے تو آپ رضوان اللہ علیہم نے ان کے شر سے انسانوں کو محفوظ بنانے کے لیے یہ اقدام کیا۔ لیکن حفاظت کے لیے رکھے جانے والے کتے کیونکہ اپنی جگہوں تک ہی محدود رہتے ہیں اور ان کا ہونا ضروری بھی تھا) تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ناصرف تین ضرورتوں یعنی شکار، کھیتوں اور جانوروں کی حفاظت کے لیے، حفاظت لائق کتے رکھنے کو اس حکم سے استثناء حاصل ہونے کی وضاحت فرمائی، بلکہ بے ضرر کتوں کو مارنے سے بھی ہمیشہ کی طرح منع فرمایا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث میں ہے:
حضرت عبد اللہ ابن المغفل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِقَتْلِ الْكِلاَبِ ثُمَّ قَالَ« مَا بَالُهُمْ وَبَالُ الْكِلاَبِ »ثُمَّ رَخَّصَ فِى كَلْبِ الصَّيْدِ وَكَلْبِ الْغَنَمِ
یعنی:
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو قتل کرنے کا حکم فرمایا۔ اور (ممانعت کا سبب بیان فرماتے ہوئے) ارشاد فرمایا اِن (لوگوں) کا کوئی معاملہ کتوں کو قتل کرنے کی ضرورت والا نہیں تھا۔ پھر شکار( کے لیے رکھے جانے) والے کتے، اور بکریوں (کی چوکیداری کرنے) والے کتے کے بارے میں رخصت عطاء فرما دی۔ (صحیح مُسلم/حدیث/4104 کتاب المساقاۃ / باب10)
لہذٰا اب ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے صرف خونخوار اور خطرناک کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ جس کسی حدیث میں صرف قتل کرنے کا حکم ہی ہے، وہ اجمالی طور پر بیان ہوئی ہیں۔ حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مفصل اور اجمالی دونوں قسم کی روایات اس کا ثبوت ہیں۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ و مطہرہ کی روایت اس کی تائید۔ اس کے علاوہ شکار، کھیتی اور جانوروں کی حفاظت کے لیے ایسے کاٹنے والے خطرناک کتوں کے لیے بھی یہ حکم ہرگز نہ تھا، کیونکہ وہ بے وجہ کبھی کسی پر نہیں جھپٹتے اور اپنی جگہ تک ہی محدود رہتے ہیں۔ البتہ جب یہ صورتحال سامنے آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید تخصیص فرماتے ہوئے صرف ایک خاص قسم کے کالے کتے تک اس حکم کو محدود فرما دیا۔ یقیناً یہ درندہ صفت کتوں پر تو "ظلم" ہی تھا، لیکن بے گناہ انسانوں پر احسان عظیم۔ اور باقی سارے درندوں کی طرح ملحدوں کی ان کتوں سے بھی ہمدردی بنتی بھی ہے۔
آئمہ و مجتہدین کی آراء بھی اس معاملے مختلف نہیں۔ اکثریت کی رائے وہی ہے جو احادیث ہی کی روشنی میں یہاں پیش ہوئی۔ ملاحظہ ہو:
علامہ بدر الدین عینی حنفی لکھتے ہیں: کاٹنے والے کتے کو قتل کرنے پر اجماع ہوچکا ہے۔ اور جو کتے بےضرر ہیں، ان میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ امام الحرمین کہتے ہیں، اولا حضور علیہ السلام نے سب کتوں کے قتل کا حکم دیا، جبکہ ترمذی، ابو داود اور ابن ماجہ کی یہ روایت امام الحرمین کے قول کا رد ہے، جس میں حضرت عبد اللہ بن مغفل سے مروی ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر کتے امتوں میں سے ایک امت نہ ہوتے تو میں ان سب کو قتل کرنے کا حکم دے دیتا۔ (یعنی سب کتوں کے قتل حکم کبھی دیا ہی نہیں)۔
علامہ مزید لکھتے ہیں کہ: حسن اور ابراہیم سیاہ کتے کے شکار کو بھی مکروہ کہتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل اور بعض شافعیہ کا بھی یہی موقف ہے کہ جب سیاہ کتا شکار کرے تو وہ حلال نہیں ہے۔ جبکہ امام ابو حنیفہ، امام مالک اور خود امام شافعی کے نزدیک سیاہ کتے کا شکار کیا ہوا بھی حلال ہے۔ (علامہ بدر الدین ابو محمد محمود بن احمد عینی حنفی، متوفی 855 ھ، عمدة القاری، ج 15، ص 302، مطبوعہ ادارة الطباعة المنیریہ مصر)
و آخر دعونا ان الحمد اللہ رب العالمین

خدا کی ذات کا ثبوت اور اس کے سائنسی دلائل (حصہ دوم)

خدا کی ذات کا ثبوت اور اس کے سائنسی دلائل
(حصہ دوم)
ویکیوم انرجی خدا کی صفت ہے اور ذہین توانائ بذات خود خدا کے وجود کی دلیل ہے کہ خدا یہاں موجود ہے کیونکہ ذہانت وجود کی دلیل
ملحدین کی منطق کہتی ہے کہ خدا کائنات سے باہر ہے سائنس کہتی ہے کائنات کے ہر ذرے میں ہے۔اب ملحدین کی منطق مانیں یا سائنس؟ ملحدین کے سکون سے بیٹھ کے چھوڑے گئے فلسفے اور منطق مانیں یا کئ سو سال کی سائنسی تحقیقات کا نچوڑ مانیں جن لوگوں نے تجربات سے اس منطق کو غلط ثابت کر دیا ؟پھر ملحد کہ دیں کہ منطق اور فلسفہ سائنس سے زیادہ مستند ہے۔یہ احمق پن بھی ظاہر کردیں۔جب کہ سائنس منطق اور فلسفے کے مفروضے تجربات سے غلط ثابت کر چکی ہے ان ملحدین کے۔ ملحدین کی منطق کو دنیا کے ذہین ترین انسان غلط ثابت کر چکے ہیں صرف ملحدین کی طرح کے خیالی نظریوں سے نہیں بلکہ تجربات سے۔
 اور کیا لازمی ہے کہ جب بندہ کوئ چیز تخلیق کرے تو اس کے اندر موجود نہ ہو؟کیا اپنا گھر بنانے کے بعد ملحد گھر میں نہیں ہوتے ؟یا باہر

خدا کی زات کا ثبوت ­اور اس کے سائنسی دلائ­ل

--خدا کی زات کا ثبوت ­اور اس کے سائنسی دلائ­ل
(Part one)
 خدا کی ذات کا اقرار ی­ا انکار کرنے سے پہلے ­لازمی ہے کہ خدا کی ذا­ت کی ایک تعریف متعین ­کی جائے کہ خدا کیا ہو­تا ہے۔تا کہ اس تعریف ­پہ ہم ان سب معبودوں ک­و پر کھیں جن کو خدا ک­ہا جاتا ہے۔پھر جو اس ­تعریف پہ پورا اترے گا­ ہم اسے خدا تسلیم کری­ں گے باقی سب کا انکار­ کر دیں گے۔
جس خدا کو میں خدا کہ­تا ہوں وہ خدا ہے جس ک­ی چار بنیادی صفات ہیں
وقت سے متاثر نہ ہونے­ والا یعنی دائمی
ہر جگہ موجود­
سب سے زیادہ طاقتور­
سب کچھ جاننے والا­
 جو چیز موجود ہی نہ ہ­و یا مکمل طور پر پوشی­دہ ہو... اس کے خصوصیا­ت پتہ نہ ہوں تو پھر ک­یسے اس کی ذات کے لیے ­تعریف متعین کی

Thursday, February 16, 2017

شرعی باندی سے بغیر نکاح قربت کی عقلی توجیہ

شرعی باندی سے بغیر نکاح قربت کی عقلی توجیہ
لونڈی، غلام اسلام کے دور اول میں یا تو وہ لوگ تھے جن کو صدیوں سے معاشرے کے غالب طبقے نے دبا رکھا تھا اور ان کی باقاعدہ تجارت ہوتی تھی اور منڈی میں قیمت لگتی تھی۔ اس غلامی کی بس اتنی سی قانونی پوزیشن تھی کہ وہ دنیا میں کسی چیز کے مالک نہ تھے اور جب سے انہوں نے ہوش سنبھالا اپنا بکنا بکانا دیکھا۔ نہ کوئی گھر، نہ وطن، نہ ان کی سوچ، نہ رائے، نہ ارادہ و اختیار، اس غلامی کو اسلام نے مختلف صورتوں سے کفارات و صدقات کی شکل میں ختم کیا اور کسی آزاد کو غلام بنانا گناہ کبیرہ قرار دیا۔ گویا آئندہ کے لئے غلامی
کا مستقل طور پر قلع قمع کر دیا،
 لونڈی غلام وہ لوگ تھے جن سے مسلمانوں نے جہاد کیا۔ وہ جنگی قیدی بنے ازاں بعد نہ تو تبادلہ اسیراں کی صورت پیدا ہوئی کیونکہ مسلمان کافروں کے پاس قیدی بنے ہی نہ تھے تبادلہ کس سے کرتے؟

روشنی کا مینار


روشنی کا مینار، تہذیب کا نقشہ گر
یہ ہے وہ معلمِ اخلاق جس نے برہنہ ہوچکی انسانیت کے تن کو تہذیب کی چادر از سر نو پہنائی۔ ظلم اور استحصال کی ایک
نہیں ہزاروں صورتیں ختم کرائیں!!!
 دین کا استحصال، اَخلاق کا استحصال، تہذیب کا استحصال، حق کا استحصال۔۔ ظلم اور جہالت کی کونسی صورت ہے جو اپنے عروج کو نہ پہنچ چکی تھی اور جسے خدا کے اِس آخری نبی نے نابود کئے بغیر چھوڑ دیا؟!!
 سب سے بڑا جھوٹ وہ ہے جو خدا کے نام پر بولا جائے۔ سب سے بڑا ظلم وہ ہے جو خدا کے نام پر روا رکھا جائے۔۔ انسان 

آدم علیہ السلام کے بعد مختلف زبانیں کیسے وجود میں آئیں


 تحریر۔بنیامین مہر
ایک بندے کا سوال ہے کہ اگر آدم علیہ السلام دنیا کے پہلے انسان تھے تو سب انسانوں کی رنگت اور زبان مختلف کیوں ہے؟ان کی پیغمبری کا محور کون لوگ تھے جب کہ وہ خود ہی پہلے انسان تھے؟
جواب۔۔۔۔

آدم ع پہلے انسان تھے۔ ان کی تبلیغ ان کی اولاد کی ہی پرورش اور ان کو دین سکھانا اور پھر ان کے بعد آنے

Friday, January 13, 2017

کتاب الٰہی کی، کیسے حفاظت کی گئی؟


کتاب الٰہی کی، کیسے حفاظت کی گئی؟
ڈاکٹر محمود احمد غازی اپنی کتاب محاضرات حدیث میں تحریر فرماتے ہیں ”کتاب الٰہی کے تحفظ کے لیے اللہ رب العزت نے دس چیزوں کو تحفظ دیا، یہ دس چیزیں وہ ہیں، جو قرآن پاک کے تحفظ کی خاطر محفوظ کی گئی ہیں“ ۔
 (۱) قرآن کی کا متن یعنی اس کے بعینہ وہ الفاظ جو اللہ رب العزت نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطہ سے یا وحی کے کسی اور طریق سے نبی آخرالزماں صلى الله عليه وسلم پر نازل کئے، آپ صلى الله عليه وسلم پر جب وحی نازل ہوتی، تو آپ فوراً کاتبین وحی میں سے کسی سے کتابت کروالے لیتے، پھر  صحابہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی زبانِ اقدس سے بھی اُسے سنتے، اور جو تحریر کیا ہوا ہوتا، اُسے بھی محفوظ کرلیتے، اس طرح ۲۳/سال تک قرآن، نزول کے وقت ہی لکھا جاتا رہا، صحابہ نے اسے حفظ بھی یاد کیا، کیوں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اس کے حفظ کی بڑی فضیلتیں بیان کی ۔ ایک روایت کے مطابق صحابہ میں سب سے پہلے حفظِ قرآن مکمل کرنے والے حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ ہیں۔
دورِ نبوی صلى الله عليه وسلم کے بعد دورِ ابی بکر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ، اور دیگر صحابہ کے کے مشورے سے اس کی تدوین عمل میں آئی، یعنی اس کو یکجا کر لیا گیا اور دورِ عثمانی میں اس کی تنسیخ‘ عمل میں آئی، یعنی اس کے مختلف نسخے بناکر کوفہ، بصرہ، شام، مکہ وغیرہ جہاں جہاں مسلمان آباد تھے بھیج دیے گئے، یہ تو تحریری صورت میں حفاظت کا انتظام ہوا، ا س کے علاوہ اس کو لفظ بلفظ یاد کرنے کا التزام کیا گیا، وہ الگ۔ اس طرح قرآن سینہ و سفینہ دونوں میں مکمل لفظاً محفوظ ہوگیا، اور یہ سلسلہ نسلاً بعد نسلٍ آج بھی جاری ہے، قیامت تک جاری رہے گا، انشاء اللہ، اللہم اجعل القرآن ربیع قلوبنا و جلاء

کھسرے اور مخنث کے اسلام میں مقام پر اعتراض

اعتراض
اہل عقل و فہم سے اک سوال ........
کھسرے کے مرنے کے بعد کیا ہونا جنت ملنی یا دوزخ ........
اگر جنت میں گیا تو حور ملنی یا کسی جنتی کی بیوی بن جانا......
خود سے علم تو بتائیں یا کسی مولوی سے سنا جو وہ بتائیں .....
نوٹ : گالی اور کفر کا فتوی پاس رکھنا ... بس جنت میں کھسرے کا درجہ بتا دو اسلام کی تعلیم سے..
جواب:
خنثی مذکر
خنثی مؤنث
دو علی حدہ اصطلاحات ھیں
خنثی مذکر کے تمام احکام مردوں والے ھیں
.اور خنثی مؤنث کے تمام احکام مونث والے ھیں

اس پر ایک ملحد غالب کمال کو جواب دیا تھا۔ وہی پیسٹ کرتا ہوں۔
نیم سائنسدان جناب غالب کمال صاحب جیسے لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام نے ہجڑوں ( خواجہ سراوں ) کو حقوق نہیں دیئے وہ دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ

Thursday, January 12, 2017

بخار کا جہنم سے تعلق ہے

حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "بخار دوزخ کی لپٹ (حرارت، تپش) میں سے ہے، اسے پانی سے ٹھنڈا کرو۔" (صحیح البخاری، 3024)
کچھ ملحدین و منکرین حدیث یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ یہ حدیث عقل کے خلاف ہے ،  بخار اور دوزخ کا آپس میں کیا تعلق ہو سکتا ہے؟
مذکورہ حدیث میں ان کے تعلق کی وضاحت نہیں کی گئی۔
حدیث کا عمومی معنی:
بعض  محققین مثلاً حافظ ابن حجر العسقلانی اور المناوی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بخار کی حرارت جہنم کی حرارت کی طرح ہے اور بخار کی یہ تپش انسان کو دوزخ کی آگ کے عذاب کا خوف دلاتی ہے۔ زین الدین محمد المناوی لکھتے ہیں:
"
بخار کی حرارت دوزخ کی آگ کی حرارت کے مثل ہے جو انسان کے

حضور کا جونیہ سے نکاح اور حدیث

حضور کا جونیہ سے نکاح اور حدیث

مستشرقین ، ملحدین و منکرین حدیث صحیح بخاری کی حضور ﷺ کے جونیہ کے ساتھ نکاح والی ایک حدیث کو لوگوں کو نبی کریم ﷺ کی پاک شخصیت کے بارے میں گمراہ کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں اور منکرین حدیث کی طرف سے اس روایت کے سہارے ذخیرہ حدیث پر سوال اٹھائے جاتے ہیں ۔ ایک منکر حدیث لکھتے ہیں : آبادی سے دور کھجور کے باغ میں جونیہ نامی عورت لائی گئی تھی جسے رسول نے کہا کہ ہبی نفسک لی تو خود کو میرے حوالے کر دے تو اس عورت نے جواب میں کہا کہ وہل تہب الملکۃ نفسہا لسوقۃ ؟ یعنی کیا کوئی شہزادی اپنے آپ کو کسی بازاری شخص کے حوالے کر سکتی ہے؟(حوالہ کتاب بخاری ، کتاب) کچھ عرصہ قبل ایک فیس بکی متجدد المعروف قاری صاحب نے انتہائی مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے اس واقعہ کی فلمی اندازمیں منظر نگاری کی اور اپنے اس سکرپٹ کو حدیث اور امام بخاری کا بیان باور کرانے کے بعد اس سے حضور ﷺ کی توہین ثابت کرنے کی کوشش کی اور لکھا کہ یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے.حضورﷺ اور آپ کی ازواج کی شان کے خلاف ہے.حضورﷺ کے اخلاق عالی کے خلاف ہے۔ اس واقعہ کو جس انداز میں یہ سب لوگ پیش کرتے ہوئے ذخیرہ حدیث کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں وہ خیر خواہی کے نام پر حدیث کا انکار

Tuesday, January 10, 2017

حضرت محمدﷺ پر خودکشی کی کوشش کی تہمت اور حدیث

حضرت محمدﷺ پر خودکشی کی کوشش کی تہمت اور حدیث
 عیسائ مشنری بخاری شریف کےاُس حدیث جو حضرت محمد ﷺ کے مبینہ خودکش کوشش کے بارے میں ہےبہت پرجوش ہیں اور اس سے نتیجہ اخذ کرنے میں بہت دور جاتے ہیں.آئیے روایت کا تجزیہ کرتے ہیں اور دیکھتے ھیں کہ دعویٰ روایات
کے قواعد کی جانچ پڑتال کے مطابق کتنا سچ ہے؟
الحدیث:

رسول اللہ ﷺ کی توہین، توہین صحابہ و ازواج مطہرات

معیار دوم، رسول اللہ ﷺ کی توہین:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف جو روایت ہوگی وہ رد کی جائے گی۔یہ اصول بھی 
 ہر محدث کا ہے
منکرین حدیث کوئی نیا اجتہاد نہیں لائے کہ قرآن کے خلاف ہر روایت رد ہے، شان نبوت کے خلاف ہر روایت رد ہے، قرآن وحدیث سے کسی مسئلہ میں جو مسلمہ اصول منقول ہو اسکے خلاف روایت متروک ہے اس اصول کو سامنے رکھ کر ہر ایک نے استخراج کیا۔ وہ جس شخصیت کو مجروح کرتے ہیں پھر اسکی کوئی بات نہیں لیتےخواہ کتنی ہی اعلی پائے کی کیوں نہ ہو البتہ جس شخصیت کو قابل قبول گردانیں اسکی بات کو کتاب اللہ اور سنت پر پیش کرکے ردواخذ کا فیصلہ کرتے ہیں۔اب کچھ کوتاہ عقلوں کو ان میں یہ مخالفتیں نظر آنے لگی ہیں تو قصور چاند کا نہیں انگلی پر لگی ہوئی نجاست کا ہے حضور چاند سڑا ہوا نہیں نکلا ۔
 
اور اگر یہ سب تسلیم بھی کرلیا جائے تو جن کتب کو اور محدثین کو

سیرت کا مطالعہ کیوں ضروری ہے ؟

سیرت کا مطالعہ کیوں ضروری ہے ؟
ڈاکٹر نور احمد نور، فزیشن ملتان لکھتے ہیں
 کا فی عرصہ کی با ت ہے کہ جب میں لیا قت میڈیکل کا لج جامشورہ میں سروس کررہا تھا تو وہا ں لڑکو ں نے سیر ت نبی ا کا نفرس منعقد کرائی اورتمام اساتذہ کرام کو مدعو کیا ۔ چنانچہ میں نے ڈاکٹر عنایت اللہ جو کھیو ( جو ہڈی جوڑ کے ما ہر تھے ) کے ہمرا ہ اس مجلس میں شرکت کی۔ اس مجلس میں ایک اسلامیات کے لیکچرار نے حضور اقدس کی پرائیویٹ زندگی پر مفصل بیان کیا اور آپ کی ایک ایک شادی کی تفصیل بتائی کہ یہ شا دی کیوں کی او ر اس سے امت کو کیا فائدہ ہوا۔ یہ بیان اتنا موثر تھا کہ حاضرین مجلس نے اس کو بہت سرا ہا ۔
 کانفرس کے اختتام پر ہم دونوں جب

Monday, January 9, 2017

محدثین معصوم نہ تھے ان سے خطا ممکن ہے

جب بھی حدیث کا دفاع کیا جائے تو منکرین حدیث عموما یہ سوال کرتے ہیں۔ تو پہلی بات یہ واضح رہے کہ صحیح بخاری کے دو گتوں کے مابین جو کچھ ہے، اس سب کو کوئی بھی منزل من اللہ نہیں کہتا۔ صحیح بخاری میں "منزل من اللہ" ہے نہ کہ کل صحیح بخاری "منزل من اللہ" ہے۔دوسری اور اہم تر بات یہ ہے کہ حدیث کو وحی کہا جاتا ہے نہ کہ صحیح بخاری کو۔ اور صحیح بخاری میں حدیث موجود ہے نہ کہ صحیح بخاری کی ہر بات حدیث ہے۔ حدیث سے مراد وہ روایت ہے کہ جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قول، فعل اورتقریر موجود ہو اور صحیح بخاری میں صحابہ کے اقوال بھی ہیں اور تابعین کے بھی۔
سلف کے اقوال بھی ہیں اور ائمہ کے بھی۔
 تیسری اور اہم تر بات یہ ہے کہ حدیث کو لفظی وحی کوئی بھی نہیں کہتا بلکہ حدیث معنوی وحی ہے۔ پس حدیث کا معنی "منزل من اللہ" ہے جبکہ حدیث کے الفاظ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہیں اگر وہ

سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراضات

فقہ پہ اعتراضات کی فہرست

فقہ پہ اعتراضات کی فہرست

اسلام پر اعتراضات کی فہرست

قرآن پر اعتراضات کی فہرست

قرآن پر اعتراضات کی فہرست


تدوین قرآن
 البینۃ کی گم شدہ آیات کی حقیقت

نظریہ الحاد فہرست

الحاد انسانیت سے فرار کا نام

ملحدین صبح شام انسانیت کا راگ الاپتے رہتے ہیں لیکن مذہب الحاد میں انسانیت کے قواعد و ضوابط کیا ہیں؟ الحاد کی تعلیمات کے مطابق تو ہر انسان آذاد ہے اور دوسروں سے بے فکر ہو کر جیسی چاہے اپنی مرضی کی زندگی گزارے
 ملحدوں کے نزدیک رشتے ناطوں کا اول تو وجود ہی نہیں ہے بس ہر کوئی مرد یا عورت ہی ہے اور جسمانی بھوک مٹانے کا اک ذریعہ, اور بالفرض اگر رشتے ناطے ہیں تو ان سے وابستہ کیا حقوق و فرائض ہیں الحاد میں؟ کسی کے کام آنا ہے تو آو اور نہیں آنا تو تمہاری مرضی, کوئی بھوک سے مرتا ہے تو مرے کون سا فرض ہے اس کی بھوک مٹانا. کیا والدین, بہن بھائی, قرابت دار, مسکین, یتیم, ہمسائے, اور باقی تمام
انسانوں کے کام آنے کا لازم حکم رکھتا ہے الحاد؟
 انسانوں کے کام نہ آنے کی صورت میں الحاد کسی کو سزا دینے کا اختیار رکھتا ہے؟
الحاد کے برعکس دین اسلام ہر انسان کو ایک مکمل ضابطہ حیات پیش کرتا ہے, اسلام میں نہ صرف انسانیت کا حکم ہے بلکہ اس کی بنیاد پر جزا و سزا ہے.
 آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ اللہ اپنے بندوں کو کتنے واشگاف الفاظ میں انسانیت کے احکامات دیتا ہے اور اپنی پکڑ سے ڈراتا ہے.

Monday, January 2, 2017

حدیث پر اعتراضات کی فہرست

حضرت ابوہرہ پر مستشرقین اور منکرین حدیث کے اعتراضات

کاپی پیسٹ..... بشکریہ محدث فورم
از: علامہ محمد عرفہ، مجلہ نورالاسلام جلد پنجم صفحہ 639
...................................

 علامہ شیخ محمد عرفہ ممبر جمعیۃ کبارالعلماء نے ازہر یونیورسٹی کے مجلہ''نور الاسلام''کی جلد پنجم میں صفحہ ۶۳۹ پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے متعلق ایک تحقیقی مقالہ سپر د قلم کیا ہے جس میں اس جلیل القدر راوی کا دفاع کیا اور ان اتہامات کا جواب دیا جو انگریزی انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کے مقالہ نگاروں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر باندھے ہیں ہم ذیل میں اس قیمتی مقالہ کا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔
مستشرق گولڈ زیھر:
 مشہور مستشرق گولڈ زیہر نے انسائیکلو پیڈیا آف اسلام جلد اول عدد ہفتم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر چند اتہامات باندھے ہیں جو کو کسی علمی وتاریخی دلیل پر مبنی نہیں ہیں۔ان اتہامات کا خلاصہ یہ ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیثیں روایت کرنے کے سلسلہ میں امانت ودیانت کا خیال نہیں رکھتے تھے۔گولڈ زیہر کا کہنا ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ زہد وتقویٰ کے بل بوتے پر حدیثیں گھڑلیا کرتے تھے اور جو لوگ براہ راست ان سے حدیثیں رایت کرتے تھے وہ بھی ان کی مرویات پر شک وشبہ کا اظہار کرتے تھے بلکہ بالفاظ صحیح تر وہ ان کا مذاق اڑاتے تھے ۔ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ عادت تھی کہ معمولی باتوں کو بھی بڑے دلکش انداز میں بیان کرتے تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑے زندہ دل اور ظریف الطبع تھے۔ یہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی خوش مذاقی ہی تھی جو بہت سی دلچسپ کہانیوں کی موجب بنی۔لطف یہ ہے کہ گولڈزیہر اپنی اسلام دشمنی پر پردہ ڈالنے کے لئے ان اتہامات کو اسلامی کتب کی جانب منسوب کرتا ۔اس سے دراصل وہ یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ یہ واقعات بجائےخود درست ہیں ورنہ مسلم مصنفین ان کو بیان نہ کرتے اس کا یہ انداز بڑی گہری اور پر فریب چال پر منبی ہے۔ ہم ان شاء اللہ اس کی بہت اچھی طرح پردہ دری کریں گے۔
اتہام کی حقیقت:
 اس میں شبہ نہیں کہ حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ جن کی ذات گرا می

لونڈی کے پردہ اور ستر پر اعتراض


دو احادیث پر منکرین حدیث اور ملحدین کا اعتراض
 
آئیے پہلے احدیث دیکھتے ہیں :
پہلی حدیث :
الكتب » السنن الكبرى » كتاب الصلاة » جماع أبواب لبس المصلي » باب عورة الأمة
إظهار التشكيل|إخفاء التشكيل
مسألة: التحليل الموضوعي
31277 (
وأخبرنا ) أبو القاسم عبد الرحمن بن عبيد الله الحرفي ببغداد ، أنبأ علي بن محمد بن الزبير الكوفي ، ثنا الحسن بن علي بن عفان ، ثنا زيد بن الحباب عن حماد بن سلمة ، قال : حدثني ثمامة بن عبد الله بن أنس عن جده أنس بن مالك قال : كن إماء عمر - رضي الله عنه - يخدمننا كاشفات عن شعورهن ، تضرب ثديهن .
(
سنن الکبری للبیہقی 3038, تفسیر یحیی بن سلام 739/2 و 441/11)۔
"" سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی باندیاں ہماری خدمت کیا کرتی تھیں۔ ان کے سر کے بالوں پر کپڑا نہ ہوتا تھا انکی چھاتیاں حرکت کرتی تھیں ""
قال الشيخ : والآثار عن عمر بن الخطاب - رضي الله عنه - في ذلك صحيحة ، وإنها تدل على أن رأسها ورقبتها وما يظهر منها في حال المهنة ليس بعورة ،
""سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے آثار اس بارے میں صحیح ہیں اور دلالت کرتے ہیں کہ باندی کا سر، گردن اور کام کرتے ہوئے جو چیز ظاہر ہو جائے، ستر نہیں ہے۔"
اس روایت پر مندرجہ ذیل اعتراضات ہو سکتے ہیں؛
11
۔ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم عورت کے برہنہ سینے کو دیکھ رہے ہیں۔ لہذا ان کے نزدیک ان کا ستر ناف سے گھٹنوں تک ہی تھا۔؟؟؟؟؟
2۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی باندیاں دوسروں کی خدمت کیوں کرتی تھیں؟؟؟
3۔ ان باندیوں کو سر اور سینے پر کپڑا لینے کی اجازت کیوں نہ تھی؟؟؟
جواب :
اول یہ کہ اس زمانے میں غلام وہ انسان تھے کہ جو جنگی قیدی بن کر آتے تھے،پھر دشمن کی قوت توڑنے اور حوصلے پست کرنے کیلئے انہیں واپس نہ کیا جاتا تھا،بلکہ